الحمراہ میں سہ روزہ فیض فیسٹیول
سیف اللہ سپرا
فیض فائونڈیشن نے لاہورآرٹس کونسل کے اشتراک سے گذشتہ ہفتے الحمرا میں سہ روزہ فیض فیسٹیول کا اہتمام کیا جس میںمصوری، ڈرامہ، فلم،ادب،اورسیاست سے تعلق رکھنے والے دوسوسے زائد مندوبین نے شرکت کی۔مندوبین میں ماہرہ خان، سرمدکھوسٹ،عمارعزیز، سمیعہ ممتاز،سینیٹررضاربانی،افراسیاب خٹک،ڈاکٹرنفیسہ شاہ،اسد عمرفرحت اللہ بابر،عندلیب عباس،روشانے ظفر،اصغرندیم سید،سیمی راحیل،امجداسلام امجد،شفقت امانت علی خان اور ارشد محمود شامل تھے۔فیسٹیول کا آغاز جمعہ کی شام کوالحمرا آرٹ گیلری میں مصوری کی نمائش سے ہوا۔ فیسٹیول کے پہلے روزفیض کی یادگار تصاویر پر مبنی تصاویر کی نمائش کی گئی۔ گلوں میں رنگ بھرے کے عنوان سے گلوکار علی سیٹھی کیساتھ کلاسیکی محفل موسیقی سجائی گئی ، عاصمہ جہانگیر کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے اجوکا تھیٹر کے زیر اہتمام ڈرامہ سائرہ اور مائرہ پیش کیا گیا۔
دوسرے روز تیس سے زائد نشستیں ہوئیں۔رکن قومی اسمبلی و مرکزی رہنما پاکستان تحریک انصاف اسد عمرنے پاکستان کا مستقبل کے عنوان سے منعقدہ سیشن میںگفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کے مفاد کی بات کرنااکثر سیاستدانوں کامطمع نظر ہی نہیں۔انھوں نے کہاجمہوریت کے بغیر پاکستان نہیں چل سکتا پارلیمان بالادست ہونی چاہیے آج کی کلیدی سیاسی جماعتوں کے منشور میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ۔سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم کے مابین فرق ختم ہو گیا ہے۔پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا کہ مزاحمت کی سیاست ختم ہوتی جارہی ہے ۔آزادی اظہار رائے مفقود ہوچکا ہے غیر مرئی طریقہ سے اس حق کو غصب کرلیا گیا ہے۔پی ٹی آئی رہنما عندلیب عباس نے کہااداروں میں اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے وہ دیوالیہ ہونے کو ہیں ہے۔ سابق سنیٹر روشن خورشید نے کہاآج کا بلوچستان تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ہماری بیٹیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں اور پاکستان کا مستقبل تابناک ہے۔سیاسی پابندیوں کے دور میں آزاد صحافت کے موضوع پرمنعقدہ سیشن میں حامد میر نے کہاسچ انتہائی طاقتور ہوتا ہے جب بولا جاتا ہے عوام میں مقبول ہوتا ہے فیض کی مانند سچ بول کر جو بھی جیل جائے یا پھانسی چڑھ جائے امر ہوجاتا ہے۔نسیم زہرہ نے کہا کہ پی ٹی ایم برا کام کرے یا اچھا اس کو زیر بحث آنا چاہیے۔وجاہت مسعود نے کہاکہ غیر پیشہ ور عطائیوں نے صحافت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔وسعت اللہ خان نے کہا صحافت کو پابند بنانے والوں کے لطائف کی تعداد بڑھ گئی ہے میرا تو خیال ہے کہ ریٹنگ کے بغیر بھی موثر ابلاغ ہوسکتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے سماجی مسائل کا حل کے موضوع پر اصغر ندیم سید نے کہاٹی وی ہو یا سوشل میڈیا ہر جگہ صرف شادی ، طلاق کی عکاسی ہورہی ہے کیا ہمارے معاشرے کے یہی حقیقی مسائل ہیں ؟مفید اور مثبت خبریں لوگوں کی توجہ ہی نہیں حاصل کرپاتیں ہیں اس مائنڈ سیٹ کو بدلنا چاہیے۔اداکاراحسن خان نے کہاناظرین کو بے وقوف سمجھنے اور بنانے کی غلط سوچ سے چھٹکارا پانا ہوگا ورنہ ایسا وقت آنے کو ہے جب ریٹنگ اور اشتہار دونوں ہی محروم ہوجائیں گے۔روشانے ظفر نے کہاسوشل میڈیا کوسماجی ترقی کیلئے استعمال کیا جانا وقت کی ضرورت ہے۔اداکار ہ سیمی راحیل نے کہالوگوں کی کردار کشی کرنا ہمارا قومی شغل بن چکا ہیاسے سے نجات حاصل کرنا ہوگی مریخ سے آکر لوگ اس طرز عمل کو ٹھیک نہیں کریں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو پر لکھی گئی کتاب کے مصنف ماہر نفسیات شمیم احمد نے کہا بھٹو کے بہت سے فیصلے ادراک کے برخلاف تھے لاہور گرامر سکول کے بچوں نے ڈانس پیش کیا۔بین الاقوامی شاعری پر فیض کا اثر کے موضوع پر امجد اسلام امجد اور ڈاکٹر طارق عابدی کے مابین مکالمہ ہوا۔کافی اور فیض کے موضوع پر ڈاکٹر عارفہ زہرہ نے اظہار خیال کیا۔لاہور ادب کا شہرکے موضوع پرامجد اسلام امجد،آصف بلال لودھی،آمنہ علی نے اظہار خیال کیا میزبانی کے فرائض شیبا عالم نے ادا کئے۔پٹیالہ گھرانہ پر شفقت امانت علی خان ، ارشد محمود نے سوالوں کے جواب دیئے۔کراچی یونیورسٹی کی جانب سے کلام فیض پیش کیا گیا۔ شاعری اور پیانو کے موضوع پرعدیل ہاشمی اور اسد انیس نے اظہار خیال کیا۔کلاسیکل آرکسٹرا طرز گروپ اور فرح یاسمین شیخ نے کتھک ڈانس پرفارمنس پیش کی۔
فیسٹول کے تیسرے روز بھی تیس سے زائد نشستیں ہوئیں۔پاکستان کے مستقبل کے موضوع پر منعقدہ نشست میں گفتگو کرتے ہوئے
سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ریاست بحران کا شکار ہے ستر سالوں سے پاکستان میں اقتدار دو فریقوں میں بٹا ہوا ہیاسی وجہ سے نہ جمہوریت مضبوط ہوئی اورنہ ہی جمہوری ادارے پنپ پائے۔افراسیاب خٹک نے کہا کہ غیر اعلانیہ پابندیاں لگی ہوئی ہیں پارلیمان کو صفر سے ضرب دیدی گئی ہے۔سابق وزیر خزانہ پنجاب ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر تمام سٹیک ہولڈرز کویکسو ہوکر ملک کیلئے پالیسیاں ترتیب دیکر کام کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہانئے پاکستان کا خمار آہستہ آہستہ اتر رہا ہے۔مہنگائی کے سونامی نے عوام کوکرپشن کا بیانیہ بھلا دیا ہے۔مولانا چلا گیا ہے اب یہ سوال ہے کہ کون آئیگا؟سیاسی جماعتوں کو نیا سیاسی کنٹریکٹ کرنا اور نیا ایجنڈا دینا ہوگا۔جمہوریت کو بہت سے دھچکے لگے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں اندرونی مکالمہ ہونا چاہیے۔سابق سینیٹر روشن خورشید نے کہانہ جانے کب دل دھڑکے گا اور دماغ چمکے گا سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ باتیں کم کریں اور کام زیادہ کریں قانون کی عملداری کا ا?غاز خود سے کریں گے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائیگا۔
سپر سٹار اور ذمہ داریاں کے موضوع پر منعقدہ نشست میںگفتگو کرتے ہوئے اداکارہ ماہرہ خان نے کہا پہنچانا جانا اچھا لگتا ہے لیکن سپر سٹار
بن کر رہنا بہت ہی مشکل ہے مجھے کو ئی اداکاری میں ہدایات نہیں دیتا سوائے سرمد کھوسٹ کے کبھی کبھی ہدایت کار کی ایک سطر ہی تمام ایکٹ کو کرنے کیلئے کافی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال کرنے والینوجوان یہ جانتے ہی نہیں کہ وہ اس کے غلام بن گئے ہیں ہر وقت ٹویٹ کرنا، انسٹا گرام پر پوسٹ کرنا ، فیس بک چلانا کے وہ زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں سوشل میڈیا پر وہ جن اجنبیوں سے منسلک ہوتے ہیں انکی کوئی حقیقت نہیں ہوتی نوجوان بیک وقت دوزندگیاں بسر کرہے ہوتے ہیں۔ہم میں سے کوئی اپنی زندگی کی مکمل کہانی عیاں نہیں کرسکتا میں بھی ایسا ہی کرتی ہوں سکھ کی ساری باتیں اس لئے نہیں بتاتی کہ نظر نہ لگ جائے۔ دکھ تو ویسے بھی سب کے ساتھ شئیر نہیں کرنا چاہیے وہ آپ کو کمزور کرتا ہے۔ اپنے بیٹے اذلان بارے کہا کہ کوشش کرتی ہوں کہ اسیبہترین وقت دینے کی کوشش کرتی ہوں۔زیادہ میک کرنا پسند نہیں حالانکہ میک اپ آرٹسٹ مجھے اپنا خیال رکھنے کی ہدایت کرتی رہتی ہے۔تین سال قبل ہی اپنی ذات کی حقیقت خود پر ا?شکار ہوئی جس کے بعد ڈرامہ سے دور رہتی ہوں۔ہدایت کار اداکار کے کام میں رنگ بھرتے ہیں۔سماج کی بہتری کیلئے اقوام متحدہ کے ادارے اور شوکت خانم کیلئیاپنی خدمات پیش کرنا اچھا لگتا ہیاوراس پر فخر ہے۔اپنے کریو کو مس کرتی ہوں اسلئے جب بھی موقع ملتا ہے ان سے مل کر داسی دور کرلیتی ہوں۔مولاجٹ فلم کب ریلیز ہوگی یہ بلال لاشاری ہی جانتے ہوں گے۔سینما کا مستقبل کیموضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اداکار و ہدایت کارسرمد کھوسٹ نے کہاکمرشل ازم نے فلمسازوں کو مجبو ر کردیا ہے کہ وہ صرف وہی فلم بنائیں جو کروڑوں روپے کما کر دے کچھ تو صرف یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ مزاحیہ فلم بنائو۔ ایک ہی طرح کا کام شروع کرنے کی دوڑ سے مایوس ہوں۔نوجوان اگر سمارٹ فون سے توجہ ہٹا لیں تو فن اداکاری میں واقعی سمارٹ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اب سینما میں کوئی بھی مقابلہ نہیں ہے صرف وہی فلم کامیاب ہوگی جس میں چیزں ٹھونسی نہ گئی ہوں۔بعض اچھے اداکار سٹار بن کر اپنی بنیادی صلاحیت اور فن اداکاری پرتوجہ دینا بند کردیتے ہیں۔ ڈیجیٹل انقلاب یعنی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی دستیابی نے نیاراستہ مہیا کردیا کردیا ہے لیکن روایتی سینما کی کشش اور فلم دیکھ کر اجتماعی لطف لینے کی طلب برقرار رہے گی۔بعض سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تو انتہائی مہنگے ہیں جو عام عوام کی دسترس سے باہر ہیں۔ہدایت کارعمار عزیز نے کہاکمرشل اور متبادل سینما کے مابین مہین لائن ختم ہوتی چلی جارہی ہے۔پنجابی سینما ختم ہوگیا ہے اسے ہر صورت بحال ہونا چاہیے۔ بظاہرسوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے ہر قسم کی فلموں کیلئے آسانیاں پیدا کردی ہیںلیکن ہوسکتا ہے کہ یہ ایک پھندہ ہو۔پاکستان میں دستاویزی فلم سازی کو اصل فلمسازی تسلیم ہی نہیں کیا جاتا ہے۔اداکارہ سمعیہ ممتاز نے کہاہماری فلم انڈسٹری جدوجہد کے مرحلے میں ہے۔فلمسازی کیلئے آئیڈیل ماحول دستیاب ہے لیکن تکنیکی عدم تربیت اور مہارت کی کمی کی وجہ سے اچھی فلمیں نہیں بن پارہی ہیں اس پر قابو پانا ہوگا۔مہنگی ٹکٹوں کو سستا کرنے کیلئے حکومتی سرپرستی انتہائی ضروری ہے۔ایک شام فیض کے نام ، فیض کی شاعری اور روایتی شاعری پر اس کا اثر، پنجاب میں سکھ ازم ، قوالی کا تاریخ میں سفر ،داستان گوئی ، بچوں کی بیٹھک،ڈیجیٹل میڈیا کے موضوعات پر سیشن منعقد ہوئے۔ آخر میں نوجوان گلوکاری نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ،ڈھول شو اورڈرامہ جہیز ایک لعنت بھی پیش کیا گیا۔فیسٹیول کے اختتام پرفیض فائونڈیشن اور الحمرا آرٹس کونسل کی سربراہ منیزہ ہاشمی نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شرکت سے ہی فیض فیسٹیول کامیا ب ہوا ہے۔