لوری اور مٹی سے بچوں کا پیار ہزاروں سال پرانا!
عیشتہ الراضیہ پیرزادہ
مٹی کی محبت میں ہمارے بڑے تو وہ قرض بھی چکاتے آئے ہیں جو ان پر واجب نہیں تھے. لیکن بچوں پر یہ کون سا وہ قرض ہے جو انہیں اس مٹی سے کھیلنے کی لگن میں ہر وقت ہر موسم میں دیوانہ بنائے رکھتا ہے؟ تاریخ اس دلچسپ سوال کا جواب دینے کیلئے ہمیں 4 ہزار برس قبل مسیح کے دور میں لے آتی ہے.
آج سے 4 ہزار سال پہلے کی تاریخ کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ مٹی سے بچوں کی محبت ان کے لاشعور میں شامل ہے. یہاں ہم پر یہ بھی منکشف ہوتا ہے کہ محبت دو طرح کی ہوتی ہے. شعوری محبت اور لاشعوری محبت. جب ہم بڑے مٹی سے یعنی اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں تو یہ اصل میں ہمارے شعور کی آواز ہوتی ہے. اور جب ہم اپنے بچوں کو مٹی سے کھیلنے کیلئے دیوانہ وار بھاگتے ہوئے دیکھتے ہیں تو دراصل یہ اپنے لاشعور کی بجاآوری کررہے ہوتے ہیں.جو ہزاروں سال سے ان کے ساتھ ہے. آخر مٹی سے بچوں کا اتنا پرانہ لاشعوری تعلق ہے کیا؟
لندن کے عجائب گھر میں رکھا مٹی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا "بچوں کی مٹی سے محبت کے راز سے" پردہ اٹھاتا ہے' جو کھدائی کے دوران دستیاب ہوا. اس عجائب گھر کا نام "برٹش میوزیم" ہے. برٹش میوزیم میں رکھے مٹی کے اس چھوٹے سے ٹکڑے پہ ایک تحریر لکھی ہے جسے دنیا کی سب سے پرانی بچوں کیلئے لکھی ہوئی "لوری" مانا جاتا ہے. ماہرین کے مطابق دنیا میں پہلی بار لوری بچوں کو رات کے وقت سلانے کے لئے ہی گائی گئی تھی اور 2 ہزار سال قبل مسیح میں یہ لوری مٹی کے ٹکڑے پر تحریر کی گئی تھی.برٹش میوزیم کے دامن میں سمائی ہوئی اس 2 ہزار سال پرانی لوری کو لکھائی کی ابتدائی صورتوں میں سیایک صورت مانا جاتا ہے. یہ تحریر کی اولین شکل سے مزین مٹی کا بظاہر بے قیمت ٹکڑا جسمانی طور پر اتنا چھوٹا ہے کہ آپ کی ہتھیلی میں بھی آجائے' اور مائوں کی اپنے بچوں سے محبت کی داستان بیان کرنے کے لئے اتنا وسیع' گہرا اور تاریخی پس منظر رکھتا ہے کہ آج دنیا بھر کی مٹی بھی جس کی کمی شاید ہی پوری کرسکے.ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق اس ٹکڑے پر درج تحریر "??ونی فارم" سکرپٹ میں ہے- دنیا کی تحریری صورت میں موجود اس پہلی " لوری " میں رات کے وقت مائیں اپنے بچوں کو پیار سے ڈرا کر کتنی سادگی کے ساتھ کس طرح سے ان کی تربیت کیا کرتی تھیں یہ ہم اس دلچسپ لوری کو پڑھ کر سمجھ سکتے ہیں' جس کا مطلب ہے "جب کوئی بچہ روتا ہے تو گھروں کا خدا ناراض ہو جاتا ہے اور پھر جب خدا ناراض ہوجاتا ہے اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا". ہماری سرزمین برصغیر پاک و ہند میں بھی مائوں کی جانب سے بچوں کو پیار سے سلانے کیلئے لوریاں گانے کی روایت بہت پرانی ہے لیکن تاریخ کے مطابق اس کا آغاز تقریباً چار ہزار سال قبل بابل کی تہذیب میں ہوا تھا' جو عراق کا شہر ہے.
بچوں پر لوری کے بہترین اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں.یورپ کے ایک مشہور ماہر نفسیات نے سینکڑوں ذہنی مریضوں پر تحقیق کی. اس تحقیق کے نتیجے میں یہ باتسامنے آئی کہ مریضوں کے امراض کی وجہ یہ ہے کہ ان کی مائوں نے انہیں لوریاں نہیں سنائی تھیں! جھولا نہیں دیا تھا اور توجہ دے کر سلانا چھوڑ دیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بچے ذہنی مریض بن گئے۔ ماں کی جانب سے جو بچے محبت بھری میٹھی لوریاں سنتے ہیں ان کی جسمانی اور نفسیاتی نشوونما میں ہم آہنگی پیدا ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ماں کی اپنے بچے کیلئے گائی "لوری" نہ صرف بچے کیلئے اچھی نیند لانے کا سبب بنتی ہے بلکہ بچے کے مستقبل کو بھی سنوارنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ جو بچے محبت کے ماحول میں ماں کی قربت کے سائے میں سوتے ہیں وہ تنہا اور "بے ذائقہ" سونے والے بچوں کے مقابلے میں بڑے ہو کر مہذب اور مثبت ذہن کے سمجھدار انسان بنتے ہیں۔ ماں کی لوری کے زیرسایہ سونے والا بچہ خود کو زیادہ محفوظ سمجھتا ہے جس کا اس کی جسمانی ذہنی و نفسیاتی صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔
مٹی سے کھیلنے والے بچے درحقیقت والدین کو یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ جس طرح سے ان کے ماں باپ اپنے وطن کی مٹی سے شعوری طور پر محبت کرتے ہیں اس طرح وہ بھی مٹی کیساتھ محبت کرکے اس سے کھیل کر بڑا ہونا چاہتے ہیں کیونکہ اس مٹی میں بچوں کیلئے گائی جانیوالی مائوں کی ہزاروں سال پرانی لوری کا لمس شامل ہے' اس لئے وہ لاشعوری طور پر اس کے بہت قریب ہیں. یہی وجہ ہے کہ دنیا کا ہر پیدا ہونے والا بچہ جب بھی اپنی ماں کو رات کے وقت لوری گنگناتے ہوئے سنتا ہے تو اس طرح سے پرسکون ہوکے سو جاتا ہے جیسے ہزاروں سال پرانی مٹی پر لکھی تحریر اس کے کانوں میں آکر کہہ رہی ہو "جب کوئی بچہ روتا ہے تو خدا ناراض ہو جاتا ہے اور پھر جب خدا ناراض ہوجاتا ہے اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا".