پاک بحریہ کے بحری جہازوں کا دورہ مراکش

نیول ڈپلومیسی بین الاقوامی تعلقات اور سفارتکاری میں انتہائی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ مختلف ممالک کی بحری افواج زمانہ امن میں استعمال کے لئے وسیع النوع سفارتکاری کیلئے مختلف وسائل بھی فراہم کرتی ہیں۔ انیسویں صدی کی تباہ کن ’گن بوٹ‘ ڈپلومیسی سے اکیسویں صدی کے فلاحی کاموں‘ تباہ شدہ علاقوں میں بحالی کے آپریشنز اور نیک تمنائوں کے اظہار تک‘ دنیا بھر میں بھری افواج کے کردار میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے۔ بحری سرگرمیوں کے مذکورہ بالا ارتقا کو ’’بحریہ کی ہراول موجودگی‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ ملکی مفادات کے تحفظ کے لئے اہم سمندری علاقوں میں بحری فوج کی زیادہ سے زیادہ موجودگی مشکلات میں اسی قدر کمی کا سبب بنتی ہے۔ بلکہ خطے میں اس بحری فوج کی موجودگی کی یقین دہانی ہے جو کسی بھی قسم کی جارحیت کے مواقع کم کرنے میں اہم ہے۔ جیسے کے پاکستان کے سفارتی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے پاک بحریہ کے بحری جہاز پی این ایس اصلت اور پی این ایس معاون کا مراکش کی بندرگاہ کا سابلا نکا کا دورہ بھی ایسا ہی پس منظر رکھتا ہے۔ متعدد افریقی اقوام کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ان ممالک کی مخصوص جدوجہد آزادی کے زمانے سے قائم ہیں۔ پاکستان کا الجریا‘ کینیا‘ سوڈان‘ زمبابوے‘ جنوبی افریقہ‘ تنزانیہ‘ نمیبیا‘ مراکش‘ لیبیا‘ مصر اور نائیجریا کے ساتھ ٹھوس اور خوشگوار تعلقات قائم ہیں۔ 13افریقی ممالک میں پاکستان کے سفارتی مشنز موجود ہیں۔ جبکہ دیگر ممالک کے لئے بھی وہی مشترکہ رضا مندی سے کام کرتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور سلطنت مراکش کے مابین 1958ء سے سفارتی و سیاسی تعلقات قائم ہیں۔ دونوں اقوام کے مابین تعلقات ان کے برادرانہ تعاون سے عیاں ہیں۔ اسی لئے یہ ابھرتے ہوئے عالمی سیاسی منظر نامے پر دونوں اقوام کے مختلف نقطہ نظر کے باوجود دونوں کے باہمی تعلقات سے مزید بہتر ہو رہے ہیں۔ نسلی اعتبار سے مراکش کے لوگ بنیادی طور پر شمالی افریقہ کے مقامی اور عرب تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسلام آباد میں مراکش کا ایک سفارتخانہ موجود ہے ادھر مراکش کے دارالحکومت رباط میں بھی پاکستانی سفارتخانہ موجود ہے۔ پی این ایس اصلت اور معاون کا مراکش کی بندرگاہ کا سابلا نکا کا دورہ دونوں برادرانہ ممالک کے مابین مستقبل کے اشترا کی تعلقات کے لئے نئی راہیں متعین کرنے کی حکومت پاکستان کی پالیسی کا تسلسل ہے۔