سرحد پار سے دہشتگردی کا بھارتی الزام اور انتقاماً کشمیری خواتین سے ریپ کرنے کا بھارتی جرنیل کا گھٹیا اور شرمناک بیان
پاکستان نے بھارتی وزیر خارجہ کی طرف سے سرحد پار دہشت گردی کے الزام اور مقبوضہ کشمیر میں حالات معمول پر آنے کے دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔ دفتر خارجہ کے ردعمل میں کہا گیا کہ یہ بیان بی جے پی قیادت کے متعصبانہ رویہ کی کھلی مثال ہے جس کا مقصد دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے عالمی توجہ ہٹانا ہے۔ اگر مقبوضہ کشمیر کی صورتحال معمول پر آگئی ہے تو یہ صورتحال دکھائی کیوں نہیں دے رہی۔ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ بھارت نفرت پھیلانے والوں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے۔ ایسے جھوٹے دعوے بی جے پی حکومت کی پاکستان مخالف مہم کا حصہ ہیں۔ دہشت گردی کیلئے پاکستان بھیجا گیا کمانڈر کلبھوشن بھارت کا اصل چہرہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں معمول کی صورتحال دنیا سے کیوں اوجھل ہے۔ بھارت پاکستان مخالف جنون ختم کر کے حقیقت کا سامنا کرے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں حق خودارادیت کی آواز دبانے میں ناکام رہا ہے۔ بھارت نفرت کا پرچار کرنے والوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ بن گیا ہے۔ فرانسیسی اخبار کو دیا جانے والا انٹرویو پاکستان مخالف پراپیگنڈے کا حصہ ہے۔ بھارت میں آر ایس ایس، بی جے پی انتہاپسند نظریئے کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ بھارت پاکستان کیخلاف جنون پھیلانے اور حقائق کو مسخ کرنے سے باز رہے۔ پاکستان خطے میں امن و ترقی کیلئے علاقائی اور عالمی کوششوں میں کردار ادا کرتا رہے گا۔دریں اثناء مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی حکمت عملی بے نقاب ہو گئی۔ بھارتی فوج نے کشمیری خواتین کی عصمت دری کو ہتھیار بنا لیا۔ سابق بھارتی جنرل ایس پی سنہا نے اپنی ذہنی گراوٹ کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیری خواتین کا ریپ کیا جانا چاہئے۔ صدر عارف علوی نے ردعمل میں کہا ہے کہ سابق بھارتی جنرل کا بیان شرمناک ہے۔ کشمیری خواتین کو بدترین درندگی کا سامنا ہے۔ بھارتی فوج کے سابق جرنیل نے ٹی وی شو میں کشمیری خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنانے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ انتقام لینے کیلئے کشمیری عورتوں کا ریپ کرنا چاہئے۔
جنرل (ر) ایس پی سنہا نے اپنی حکومت کو گھٹیا ترین‘ اخلاق سوز اور انسانیت سے گری ہوئی جو تجویز دی‘ یہی اصل میں بی جے پی کی سیاست اور حکومت کا چہرہ ہے۔ اس شیطانی چہرے کے پیچھے آر ایس ایس کا دماغ کارفرما ہے۔ آر ایس ایس ایک مجسم دہشت گرد تنظیم اور سفاکانہ سوچ کی حامل ہے۔ جنرل ایس پی سنہا نے ٹی وی چینل پر خواتین کی موجودگی میں چیخ چیخ کر کشمیری خواتین سے زیادتی کی حمایت کرتے رہے،حتیٰ کہ وہاں موجود شرکاء نے بھی سابق بھارتی جرنیل کی ان شرمناک باتوں پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ان کی شدید مخالفت اور مذمت کی۔پروگرام کی اینکر اور پینل میں شامل دیگر ارکان نے ایس پی سنہا کو آڑے ہاتھوں لیا اور اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس طرح کی انسانیت سوز باتیں کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔سوشل میڈیاپرسابق بھارتی جنرل کے بیان کی دنیا بھر میں شدیدمذمت کی جارہی ہے اور لوگ اپنے غصے اور ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ایس پی سنہا کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ خواتین سے متعلق اس طرح کے گھناؤنے عمل کی ترغیب دینے والے شخص پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ سنہا کی طرف سے بظاہر بی جے پی کو اس انسانیت سوز اقدام پر اکسانے کی کوشش کی گئی ہے مگر مقبوضہ کشمیر میں ایسا کچھ ایک عرصہ سے ہورہا ہے۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس بری طرح پامال کیا جاتا ہے۔ خواتین گھر کے باہر تو کیا‘ گھروں کے اندر بھی محفوظ نہیں رہیں۔ بھارتی فورسز کی طرف سے اجتماعی زیادتی کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ کشمیر کے تنازعہ نے اگر لاکھوں کشمیریوں کی جانیں لی ہیں تو ہزاروں عفت مآب خواتین کو انفرادی اور اجتماعی زیادتیوں کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان خواتین کی چیخیں گونجتی ہیں مگر صدابصحرا ثابت ہوتی ہیں۔ حالیہ مہینوں میں کم سن بچیوں کے ساتھ ریپ کے ہولناک واقعات بھی سامنے آئے جس کی پوری دنیا میں مذمت کی گئی مگر بھارتی سرکار کے مردہ ضمیر پر کیا اس کا اثر ہو سکتا تھا۔
بھارتی فورسز پر ہر قسم کی سفاکیت و بربریت پر کوئی قدغن نہیں‘ بے گناہ انسانوں کا قتل عام تو بھارتی حکومت کی پالیسی کا حصہ ہے۔ اب ماضی کے مقابلے میں بھارتی فورسز کے مظالم میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ بھارتی فورسز کی تعداد سات لاکھ سے بڑھا کر ساڑھے نو لاکھ کردی گئی ہے۔ ہر گھر کے آگے مسلح فوجی کھڑا ہے‘ گویا کشمیریوں کی سانسوں کی بھی نگرانی ہورہی ہے۔ 5 اگست کے بھارتی حکومت کے کشمیر پر شب خون کے بعد وادی میں کرفیو کے نفاذ کو 106 دن ہوگئے ہیں۔ اس دوران شہر شہر‘ گائوں گائوں‘ قریہ قریہ عقوبت خانہ بناہوا ہے۔ نہ وہاں پر کشمیریوں کو کاروبار کرنے دیا جارہا ہے اور نہ ہی نماز جمعہ کی ادائیگی کی اجازت دی جاتی ہے۔ ذرائع ابلاغ پر قدغن بھی بدستور موجود ہے‘ انٹرنیٹ سروس معطل اور پوری وادی قید خانہ کا منظر پیش کررہی ہے۔ خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے اور لوگوں کو ہسپتالوں تک رسائی نہیں ہے۔ بھارتی حکومت اقوام متحدہ یا دیگر بین الاقوامی اداروں یہاں تک کہ اپنے ارکان پارلیمنٹ کو بھی زمینی صورتحال کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں دے رہی۔ وادی میں انسانی بحران اور انسانی المیے نے بدترین شکل اختیار کرلی ہے۔ بے روزگاری انتہا پر پہنچ چکی ہے‘ خوراک ادویات اور بنیادی انسانی ضروریات کی اشیاء کا فقدان ہے۔ انسانیت تڑپ رہی ہے‘ بلک رہی ہے‘ عالمی برادری اس بھارتی بربریت کی ساری صورتحال سے آگاہ ہے ۔بھارت پر یہ سلسلہ ختم کرنے پر زور دیا جارہا ہے‘ تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے‘ کئی ممالک کی طرف سے بھارت اور پاکستان کو ثالثی کی پیشکش کی گئی مگر ہٹ دھرمی پر اترا بھارت کسی کی بات سننے کو تیار نہیں۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا‘ کیا دنیا آخری کشمیری کے بھارتی فورسز کے ستم کی بھینٹ چڑھنے کا انتظار کریگی۔
پاکستان کی طرف سے ممکنہ حد تک کشمیریوں پر بھارتی مظالم سے دنیا کو آگاہ کردیا گیا ہے۔ بھارت پاکستان کے اس کردار پر دہکتے کوئلوں پر لوٹ رہا ہے‘ اس نے پاکستان کو خاموش کرانے کیلئے دھمکیوں کا سلسلہ شروع کردیا‘ لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ اس کا روز کا معمول ہے جس میں اب تیزی آگئی ہے۔ پاکستان کی مغربی سرحد پر بھی اپنے نمک خواروں کو متحرک کر دیا۔ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے وہ عرصہ سے افغان سرزمین استعمال کررہا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد کی‘ جس پر بھارت پاکستان کو دہشت گردوں کا پشت پناہ قرار دیتا ہے۔ کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو بھی وہ دہشت گردی قرار دیتا ہے۔ بھارت کے اس لغو اور بے بنیاد پراپیگنڈے میں 5‘ اگست کے بعد مزید تیزی آگئی مگر پاکستان نے اسکے مذموم عزائم اور کشمیریوں پر بڑھتے مظالم کو بے نقاب کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جو بھارت کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ لہٰذا اس نے جنگ کا ماحول پیدا کر دیا۔ پاکستان اپنے موقف سے سرِمو پسپائی پر تیار نہیں۔ جنگ کے بادل بدستور منڈلا رہے ہیں۔ یہ جنگ کرۂ ارض کی بربادی پر منتج ہو سکتی ہے۔ عالمی برادری کے پیش نظر یہی سوچ ہونی چاہیے۔ بھارت کے لغو پراپیگنڈے کا اندازہ بھارتی وزیرخارجہ کے مقبوضہ کشمیر میں سب اچھا ہے کے بیان سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے اس کا پوری طرح پوسٹمارٹم کرکے حقائق دنیا کے سامنے رکھے گئے ہیں۔ بھارتی حکومت کی طرف سے ایسا ہی جھوٹ سپریم کورٹ میں بھی بولا گیا تھا کہ کشمیر میں سب اچھا ہے تو غیرجانبدار میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھارت وادی میں جانے سے کیوں روک رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال نارمل قرار دینا بھارت کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ اب سرکاری طور پر ایک اور ستم توڑے جانے کے خدشات جنم لے رہے ہیں۔ ایک سابق جرنیل کشمیری خواتین سے جبری زیادتی کو پالیسی کا حصہ بنانے پر زور دے رہا ہے۔ یہ انسانیت کے چہرے پر طمانچہ ہوگا اور عالمی برادری سمیت اقوام متحدہ کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہوگا۔ دنیا کو ایسی بھیانک سوچ کے عملی صورت اختیار کرنے سے قبل نوٹس لینا ہوگا۔ اب محض تشویش‘ اظہار افسوس اور مطالبات سے آگے جاتے ہوئے عملیت کی راہ اختیار کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔