وزیراعظم عمران خان نے اپنی قانونی ٹیم کو نواز شریف سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ کا جائزہ لینے کی ہدایت کی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے اس سلسلہ میں حکومتی قانونی ٹیم سے رابطہ قائم کیا ہے جو نواز شریف سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے تفصیلی فیصلے کا جائزہ لے کر رپورٹ تیار کرے گی۔ یہ رپورٹ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کی جائے گی۔
یہ د لچسپ صورتحال ہے کہ پاکستان کے اٹارنی جنرل انور منصور اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نواز شریف سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ کو حکومت کی جیت قرار دے رہے ہیں جن کے بقول عدالت عالیہ نے نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کے لئے حکومت کی عائد کرد ہ بانڈز کی شرط ختم نہیں کی بلکہ معطل کی ہے جبکہ نواز شریف اور شہباز شریف کی جانب سے عدالت عالیہ میں دیا گیا حلف نامہ بانڈز سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اسی طرح وزیر ریلوے شیخ رشید احمد ہائیکورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہ کرنے کے واضح عندیہ دے رہے ہیں جبکہ اب وزیر اعظم عمران خاں نے حکومت کی قانونی ٹیم کو ہائیکورٹ کے فیصلہ کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ کابینہ میں پیش کرنے کا کہہ دیا ہے جس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے میاں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کے لئے بانڈز کی شرط معطل کرنے سے متعلق ہائیکورٹ کا فیصلہ خوش دلی سے قبول نہیں کیا اور حکومت کی جانب سے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا امکان موجود ہے۔ جب حکومت پنجاب کے مقرر کردہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹوں کی بنیاد پر وزیر اعظم عمران خاں خود بھی میاں نواز شریف کی صحت کے بارے میں فکر مندی کا اظہار کر چکے ہیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے ان کی ضمانت منظور ہونے کے بعد انسانی ہمدردی کے تحت میاں نواز شریف کو علاج معالجہ کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تو حکومت کو اس بڑے پن کے تحت میاں نواز شریف کو خود بیرون ملک بھجوا دینا چاہئے تھا مگر بعدازاں حکومتی سوچ یکسر تبدیل ہو گئی اور وفاقی کابینہ نے کابینہ کمیٹی تشکیل د ے کر میاں نواز شریف کی ملک واپسی کو سات ارب روپے کے قریب بانڈ کے ساتھ مشروط کر دیا، میاں نواز شریف نے یہ بانڈ بھرنے سے معذرت کی اور میاں شہباز شریف نے کابینہ کمیٹی کا یہ فیصلہ لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔ حکومتی وکلاء کی جانب سے اس کیس کی سماعت کے دوران بھی بانڈ کی شرط برقرار رکھنے پر اصرار کیا گیا اور اس حوالے سے عدالت عالیہ کے تیار کئے گئے حلف نامہ کو بھی قبول کرنے سے معذرت کر لی گئی، چنانچہ فاضل عدالت نے حکومتی موقف مسترد کرتے ہوئے بانڈ بھرنے کی شرط معطل کر دی۔ اس ساری ایکسرسائز میں جہاں میاں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی تاخیر کا شکار ہوئی وہیں حکومت پر تنقید کے راستے بھی کھلے اور حکومتی اتحادی چودھری شجاعت حسین نے بھی میاں نواز شریف کی غیر مشروط روانگی کی حمایت کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ دودھ میں مینگنیاں ڈالنے سے گریز کیا جائے۔ اب ہائیکورٹ کا عبوری حکم صادر ہوا ہے تو اس پر عملدرآمد کے معاملہ میں دودھ میں مینگنیاں ہی ڈالی جاتی نظر آ رہی ہیں جس کے قومی سیاست پر خوشگوار اثرات مرتب ہونے کا امکان بھی ختم ہوسکتاہے۔ اصولی طور پر اب حکومت کو میاں نواز شریف کے معاملہ پر ہائیکورٹ کے فیصلہ پر من و عن عملدرآمد یقینی بنانا چاہئے تاکہ سیاسی فضا میں پیدا ہونے والی تلخی کا بھی ازالہ ہو سکے۔ اگر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے ضمانت نامہ کی پاسداری نہیں کریں گے تو خود ہی قانون اور عدالت کی عملداری کے شکنجے میں آ جائیں گے۔ حکومت کو بہرصورت ہائیکورٹ کے فیصلہ پر ہی صاد کرنا چاہئے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024