منگل ‘21 ؍ ربیع الاوّل1441ھ ‘ 19؍ نومبر2019 ء
ہانگ کانگ میں مظاہرین تیر استعمال کرنے لگے
یوں تو مظاہرے دنیا بھر میں ہوتے ہیں۔ کہیں مختصر عرصہ کے لیے کہیں طویل عرصہ تک جاری رہتے ہیں۔ فرانس میں پیلی جیکٹ والے نہایت عزم بالجزم کے ساتھ پولیس والوں کے ساتھ نبردآزما ہیں۔ اسی طرح ہانگ کانگ میں بھی مظاہرین کافی عرصہ سے پولیس والوں کے ساتھ و دودو ہاتھ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ فرانس چونکہ ذرا مہذب اور ترقی یافتہ ملک ہے اس لیے وہاں مظاہرین بھی مہذب انداز میں مظاہرے کرتے ہیں۔ ہلکا پھلکا پتھرائو یا بہت ہوا تو پٹرول بم چلا دیا۔ توڑ پھوڑ یہ لوگ کم کرتے ہیں جس کے جواب میں پولیس بھی مہذبانہ انداز میں جوابی کارروائی کرتی ہے جو آنسو گیس اور دوبدو مقابلے میں لاٹھی چارج تک محدود ہوتا ہے۔ زیادہ ہوا تو گرفتاری کر ڈالی۔ اس کے برعکس ہانگ کانگ میں ایشیائی ملک ہونے کی وجہ سے مظاہرے پر تشدد ہوتے ہیں۔ مظاہرین جو سڑکوں پر نکلتے ہیں تو بدمست ہاتھی کی طرح جو چیز راہ میں آئے اسے کچل یعنی توڑ پھوڑ کر رکھ دیتے ہیں یا آگ لگا دیتے ہیں۔ اس کے جواب میں پولیس بھی وہی روایتی تھرڈ ڈگری والا فارمولہ استعمال کرتی ہے۔ ربڑ کی گولیاں برساتی ہے یا براہ راست فائرنگ بھی ہوتی ہے۔ اندھا دھند لاٹھی چارج کرتی ہے جو سامنے آئے اسے دھنک کر رکھ دیتی ہے۔ آنسو گیس سے لے کر مرچی گیس اور نجانے کون کون سے گیس برساتی ہے۔ گرفتاریاں بھی عام ہیں۔ اب اس کے جواب میں مظاہرین نے روایتی طریقہ ویت نامی طرز جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ اب وہ پولیس والوں پر تیر برسانے لگے ہیں۔ یہ ایک خطرناک موڑ ہے احتجاجی مظاہروں کے لیے۔ کیونکہ اس سے کافی پولیس والے زخمی ہو رہے ہیں۔ اگر یہ طریقہ دنیا بھر کے مظاہرین میں عام ہو گیا تو حفاظتی فورسز کیلئے جو پہلے ہی پتھر والوں سے تنگ ہیں تیر والوں سے نمٹنا مشکل ہو جائے گا۔
٭٭٭٭٭٭
شاہ کوٹ میں کتوں کو مارنے کے لیے خریدا گیا لاکھوں کا زہر 2 نمبر نکلا
ملک کے مختلف شہروں میں کتے کے کاٹنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے مگر صوبائی حکومتیں اور ضلعی انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی ۔ ہر جگہ ایک ہی شور ہے کہ کتے کے کاٹے کی ویکسین موجود نہیں۔ درجنوں مرد عورتیں اور بچے تڑپ تڑپ کر جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ مگر یہ ویکسین سیمرغ کے انڈے کی طرح عنقا ہے۔ کہیں دستیاب نہیں۔ اگر ہے تو وہ غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں کتے کے کاٹنے کے مریضوں کو کورا جواب ملتا ہے
اب شاہ کوٹ میں کتوں کو مارنے کے لیے جو زہر لایا گیا وہ بھی دو نمبری یعنی جعلی نکلا۔کوئی کتا نہ مرا۔ اس پر بلدیہ والے سر پیٹ رہے ہوں گے اور کتے ہنس رہے ہوں گے۔ ٹھیکیدار لاکھوں کا چونا لگا گیا۔ اب اسے پکڑ کر کتوں کے حوالے کرنا ضروری ہے تاکہ اسے کتوں کے کاٹنے والی تکلیف کا احساس ہو اور بعد میں علاج کے لیے ویکسین نہ ملنے کا دکھ بھی۔ سندھ کی وزیر عذرا پلیجو نے کمال بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں اضافہ پر والدین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بچوں کو کتوں سے بچائیں ۔ کتوں کو نہ چھیڑیں۔ یہ تو وہی ’’سنگ پابند و سگ آزاد‘‘ والی بات ہے۔ اگر کتے ازخود بچوں پر ٹوٹ پڑیں جیسا کہ ہو رہا ہے تو کیا کیا جائے۔ اس لیے اب ان واقعات سے بچنے کے لیے شہریوں کو خود ان مردم بیزار کتوں سے نجات پانے کے لئے اپنے پیاروں کو مرنے سے بچانے کے لیے کتے مار مہم چلانا ہو گی اور جو کتا جہاں نظر آئے اسے ختم کرنا ہو گا۔ تب ہی یہ مسئلہ حل ہو گا۔
٭٭٭٭٭٭
خورشید شاہ نے ضمانت پر رہائی سے انکار کر دیا
یہ تو شاہ جی نے کمال کر دیا۔ نیب سے کہہ رہے ہیں یا تو کرپشن کے الزامات ثابت کرو یا باعزت بری کرو۔ ورنہ وہ ضمانت پر باہر آنے کو تیار نہیں۔ اب نیب کو وختہ پڑ گیا ہو گا کہ کیا کرے۔ کیونکہ وہ شاید اب شاہ جی سے جان چھڑانے کے چکر میں ہے۔ مگر شاہ جی کمبل بن کر نیب والوں سے چمٹ گئے ہیں جو اب اس ناگہانی آفت سے بوکھلا پھر رہے ہیں۔ اب انہیں کوئی نئی کوشش کرنی ہو گی ۔ شاہ جی کو باہر نکالنے کی۔ شاہ جی کا کہنا ہے کہ پرانے مقدمات کو کھول کر ان کی کردار کشی کی گئی ہے۔ تین میں سے دو مقدمات میں انہیں عدالت نے بری کیا ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ جی کی بات میں وزن ہے۔ اب نیب اپنے کیسوں میں کیسے وزن پیدا کرتا ہے۔ یہ نیب کے کرتا دھرتا ہی جانتے ہوں گے۔ اگر شاہ جی نے اربوں روپے کی کرپشن کی ہے تو اس کا کوئی ثبوت تو ہو گا۔ اگر ہے تو سامنے لایا جائے تاکہ حساب بے باک ہو۔ نیب کی کارکردگی اس معاملے میں کیا ہے سب جانتے ہیں۔ ورنہ جن کے گھروں سے اربوں روپے کا مال و زر برآمد ہوا آج تک ان کو کونسا نشان عبرت بنایا گیا ہے کہ عوام کا دل خوش ہوتا۔ یہاں تو نیب بھی واپڈا، پولیس اور محکمہ انکم ٹیکس والوں کی صف میںکھڑا نظر آتا ہے۔
٭٭٭٭٭
الحمرا میں فیض امن میلہ اختتام کو پہنچا
فیض نے نجانے کس مرحلہ شوق میںوادات قلبی میں ڈوب کر کہا تھا…؎
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
آج ان کا یہ کہا ان کے اپنے لئے ہی سچ ثابت ہو رہا ہے۔ الحمرا میں تین روزہ فیض امن میلے میں صرف پنجاب ہی نہیں سندھ، بلوچستان اور خیبر پی کے سے بھی بے شمار فیض کے چاہنے والے کھنچتے چلے آئے اور یوں تین دن الحمرا میںفیض کا راج رہا۔ میلے ٹھیلے ہمارے سماج کا ایک اہم حصہ ہیں۔ جس میں لوگ ذوق و شوق سے حصہ لیتے ہیں۔ صوفی بزرگ ہوں یا موسموں کے بدلتے رنگ۔ کہیں نہ کیں کسی نہ کسی حوالے سے میلے سجتے رہتے ہیں۔ سو اب ان میں فیض میلہ بھی اہم مقام حاصل کر چکا ہے بلکہ یہ کہہ لیں کہ ان میلوں کا حصہ بن چکا ہے۔ کہیں موسیقی کے شائقین کلام فیض کا رنگ جماتے نظر آتے ہیں کہیں دانشور اپنی نگارشات پیش کرتے اور کہیں شعرا اور ادبا اپنی محفل سجاتے نظر آئے۔ فیض کی مزاحمتی اور انقلابی شاعری کو عوام میں جو مقبولیت حاصل ہے ا س نے انہیں ملامتی صوفی کا درجہ دیدیا ہے۔ یہی وجہ ہے جہاں کہیں فیض کے نام پر کوئی تقریب ہو بلاتفریق مذہب و مسلک سب غمگسار چلے آتے ہیں۔ یہی ان کی مقبولیت کا اعجاز ہے کہ صوفی ، سنت فقیر سے لے کر پڑھے لکھے دانشور تک ان کے نام پر سجے میلوں میں موجود ہوتے ہیں اور ان کے کلام پر سر دھنتے ہیں۔
٭٭٭٭٭