علامہ اقبال نے سکھوں کے مذہبی پیشوا اور سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے یہ اشعار لکھے۔ اسکی بڑی وجہ یہ تھی کہ بابا جی واحدانیت کے قائل تھے اور خدائے بزرگ و برتر کو خالقِ کائنات مانتے تھے۔ ان کی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب میں بھی مسلم علمائے دین کے کلام کی جھلک نظر آتی ہے۔ خاص طور پر پاکپتن کے بابا فرید سے وہ خاصے متاثر تھے۔ بابا جی کی 550 ویں برسی منائی جا رہی ہے۔ 15 اپریل 1469 ء کو پیدا ہوئے ہر نومبر میں پورن ماشی کی رات گردوارہ جنم استھان سے ان کی پالکی اُٹھتی ہے جو ننکانہ شہر کے مختلف بازاروں سے جلوس کی شکل میں گزرتی ہے۔ چارسُو پتلے ڈنڈوں کی کھڑ کھڑاہٹ میں ایک ہی فلک شگاف نعرہ بلند ہوتا ہے۔ ہمارے نانک، تمہارے نانک، سب کے نانک…بابا جی کی سادگی ، اخلاص اور محبت سے متاثر ہو کر ایک مسلمان راجپوت رائے بلاد بھٹی نے اپنی کئی سو مربعہ اراضی گردوارہ جنم استھان کے نام کر دی۔ سکھ مذہب کی اساس تین سنہری اصولوں پر اُٹھائی گئی ہے۔
(i ) نام جپَو
(ii ) ونڈ چکھو
(iii ) کرِت کرو۔
دنیا کے جتنے مذاہب ہیں ان کی الہامی کتابیں ہیں، ہر مذہب اپنے پیروکاروں کو انہیں پڑھنے کی تلقین کرتا ہے کیونکہ اس سے اذہان کو جِلا ملتی ہے اور قلوب منور ہوتے ہیں۔ سکھ مذہب کا پہلا اصول بھی یہی ہے۔ ذکر خدا ۔ ونڈ چکھنے سے بھائی چارے کی فضا قائم ہوتی ہے۔ اسلام نے بھی حقوق العباد پر بہت زور دیا ہے۔ غربا، مساکین اور نادار لوگوں کا خیال رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ کی رضا یا اس کے بندوں کی فلاح کے لیے کیا جائے عین عبادت ہے۔ عبادت کا ہی وہ اعلیٰ و ارفع مفہوم ہے جو دین مبین کو دیگر مذاہب سے منفرد اور ممتاز کرتا ہے۔ حقوق اللہ کے ضمن میں تو غفلت پر شاید معافی مل جائے لیکن حقوق العباد میں کوتاہی پر معاف نہیں کیا جا سکتا۔ یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں ۔
(iii ) کرت کرو کے معنی ہیں رزقِ حلال دھوکہ دہی سے اجتناب ۔ انصاف ! جہاں ظلم اور ناانصافی اور فراڈ ہو گا وہاں معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے حضرت علی کا قول ہے…کفر کی حکومت میں تو کسی نہ کسی طور زندہ رہا جا سکتا ہے لیکن ظلم اور ناانصافی کی فضا زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔ ماتا ترپتا اور کالو کھشتری کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کے گھر ایک ایسے سپوت نے جنم لیا ہے جو پنجاب کی تاریخ کا رخ موڑ دے گا اورایک نئے مذہب کی بنیاد رکھے گا۔ سکھوں کے جو پنج ککے (کاف) مشہور ہیں ، کیس ، کرپان، کڑا کچھا اور کنگھا وغیرہ یہ با با جی کے وقت نہ تھے۔ انہیں گرو گوبند سنگھ نے ’’فارمالائز‘‘ کیا۔ اس کی بنیادی وجہ حفاظت تھی۔ اورنگ زیب کے زمانے میں معتوب ہوا۔ خیر یہ ایک الگ داستان ہے۔
ویسے تو سکھ ایک محنتی اور بہادر قوم ہے لیکن ان سے ایک تاریخی غلطی ہوئی۔ تقسیم سے قبل قائد اعظم نے انہیں سمجھایا کہ وہ بھی ایک الگ ملک کا مطالبہ کر دیں۔ ماسٹر تارا سنگھ اینڈ کمپنی اس وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے۔ وہ ہندوئوں کے بہکاوے میں آ گئے اور انہوں نے ایک صائب مشورے کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ تقسیم کے بعد جو فسادات ہوئے ان میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ ہندو مسلمانوں کی طرح ان کے بنیادی حقوق بھی سلب کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ امرتسر کے سنہری گردوارے میں ان کا قتل عام ہوا اور جب انتقاماً ایک خالصے سیکورٹی گارڈ نے اندرا گاندھی کو قتل کیا تو دلی میں ان کو چُن چُن کر مارا گیا۔ تیس ہزار سکھ نہایت بہیمانہ انداز میں قتل ہوئے۔ ایک مغربی جریدے نے لکھا۔
(To BE KNOW SIKH WAS USUALLY TO BECOME SIKH)
اس کے بعد آزادی کی نیم دلانہ تحریک اُٹھی جسے سختی سے دبا دیا گیا۔ فارسی زبان کا محاورہ ہے’’مشتے کہ بعد از جنگ یاد آید برکلہ خود باید زد‘‘ نتیجتاً مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان ماہئیت قلب ہوئی۔ ننکانہ میں زائر سکھوں کو خوش آمدید کہا گیا۔ انہیں ہر قسم کی سہولتیں فراہم کی گئیں ان کی جو عزتِ نفس امرتسر کے گولڈن ٹیمپل میں مجروح ہوئی تھی اسے گوردوارہ جنم استھان میں بحال کیا گیا۔
میں 1976ء سے لیکر 1980ء تک اسسٹنٹ کمشنر ننکانہ صاحب رہا۔ شہر میں سات گرد واروں کا انتظام بھی میرے من جملہ فرائض میں شامل تھا۔ حکومت کی ہدایت تھی کہ زائرین کی دلجوئی میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا جائے۔ ان کی سہولیات کا خاطر خواہ بندوبست کیا جائے۔ تقریبات کے دوران AC اور DSP کا دفتر بھی گوردوارے میں ’’شفٹ‘‘ ہو جاتا تھا۔ ہندوستانی حکومت ان کو بادلِ نخواستہ زیارت کی اجازت تو دے دیتی ہے لیکن ان پر کڑی نگاہ رکھتی ہے۔ ایجنسیوں کے گرگان بارہ دیدہ کثیر تعداد میں بھیس بدل کر آ جاتے اور ان پر کڑی نگاہ رکھتے۔ کسی مسلمان سے سکھوں کا ملنا انہیں ایک آنکھ نہ بھانا۔ واپسی پر ان سے سخت باز پرس ہوتی…ڈر اور خوف کی فضا میں یہ یکسوئی کے ساتھ اپنی مذہبی رسومات بھی ٹھیک طرح سے ادا نہ کر پاتے۔ کہنے کو تو ہندوستان ایک سیکولر ریاست ہے۔ درحقیقت اتنا متعصب ، تنگ نظر معاشرہ دنیا میں کہیں نہیں ہے جہاں گائو ماتا کی خیالی بے حرمتی پر سینکڑوں مسلمان شہید کر دئیے جائیں ۔ وہاں کے لوگ انسان کہلانے کے کسی صورت میں بھی حقدار نہیں۔
میری تعیناتی کے دوران بشن سنگھ بیدی کی کرکٹ ٹیم ’’متھا ٹیکنے‘‘ ننکانہ صاحب آئی۔ ’’کپل دیو‘‘ لالہ امرناتھ کے صاحبزاد ے مہندر امرناتھ، سریند امرناتھ وغیرہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ حکومت کی ہدایت پر انہیں تمام گردواروں میں لے جایا گیا اور میں نے ان کے اعزاز میں لنچ بھی دیا۔ کپل دیو ان دنوں ہریانہ یونیورسٹی میں ایم ۔ اے سیاسیات کر رہا تھا اور یہ اس کا پہلا میچ تھا۔ میں نے کہا۔
قرائن اور شواہد سے لگتا ہے کہ تم ایک عظیم بائولر بنو گے۔ خوش ہو کر بولا۔ ’’بھگوان سے پرارتھنا کریں ‘‘ عرض کیا پرارتھنا مندروں میں ہوتی ہے ’’میں تو خدائے بزرگ و برتر کے حضور دعا ہی کر سکتا ہوں۔‘‘ کچھ سمجھتے ہوئے ، کچھ نہ سمجھتے ہوئے مسکرا دیا بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ سُریندر اور مہندر اپنے وقت کے مشہور کرکٹر لالہ امرناتھ کی اولاد ہیں۔ لالہ امرناتھ ہمارے کرکٹر ڈاکٹر دلاور حسین کی طرح ڈشکرا بھی تھا۔ ضدی اور غصیل، آئوٹ ہونے کی صورت میں دونوں ایمپائر سے لڑ پڑتے اور پچ پر لیٹ جاتے۔ ان کا ایک جملہ بڑا مشہور ہوا۔
(MY SONS ARE IN THE DRIVING SEAT)
کرتار پور بارڈر کھول کر حکومت نے سکوں کے دل جیت لیے ہیں۔ ایک زیر بار قوم کو مزید زیر بار کر دیا ہے۔ بابا جی نے اپنی زندگی کے بقیہ ایام اسی گردوارے میں گزارے۔ اس لیے گردوارہ جنم استھان اور حسن ابدال کی طرح اس کی بھی بڑی اہمیت ہے۔
چونکہ یہ پاک ہند بارڈر پر ہے ا س لئے سہولتوں کے اعتبار سے اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ وزیر خارجہ نے فرط جذبات میں آ کر اس اقدام کو عمران خان کی گلگلی کہا ہے۔ لفظ تیر کی طرح ہوتے ہیں جو کمان سے نکل کر واپس نہیں آتے۔ اس لیے قریشی صاحب کو بولنے سے پہلے تولنا چاہئے۔ خان کی خلوص نیتی کو کوئی اورمعنی نہیں پہنانے چاہئیں۔ کوئی اور رنگ نہیں دینا چاہئے!
اپوزیشن نے کچھ اعتراضات اُٹھائے ہیں جو محلِ نظر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حزب مخالف تنقید کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتی لیکن اصل بات یہ ہے کہ انہیں موقعہ ہی کیوں دیا جائے۔ احسن اقبال نے پاسپورٹ کی شرط ختم کرنے پر اعتراض کیا ہے۔ اس میں وزن ہے۔ سکھوں کی اکثریت انڈین نیشنل ہے۔ کسی ہندوستانی شہری کو بغیر پاسپورٹ کے پاکستان نہیں آنا چاہئے۔
آجکل پاسپورٹ بننے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ اگر مسلمان پانچ لاکھ روپے خرچ کر کے پاسپورٹ پر حج کر سکتے ہیں تو سکھ پانچ سو روپے خرچ کر کے پاسپورٹ کیوں نہیں بنوا سکتے؟ مولانا نے 9 نومبر کے دن پر اعتراض کیا ہے کیونکہ یہ علامہ اقبال کا یوم پیدائش ہے۔ وہ اس نظم کو بھول گئے جو علامہ نے بابا پر لکھی ہے۔
ہر قسم کی تنقید کے باوصف حکومت کے اقدام کو سراہنا چاہئے اس نے نریندر مودی کو (BACK FOOT) پر لاکھڑا کیا ہے۔ وہ عجیب مخمصے کا شکار ہو گیا ہے۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔
بلوچستان اور افغانستان میں جو وہ کر رہا ہے، وہ سب کو معلوم ہے چانکیہ کے پیروکار کو معلوم ہونا چاہئے کہ تاش کے کھیل میں ہر نہلے پر ایک دہلا بھی ہوتا ہے۔
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024