پی ٹی آئی حکومت کے 3 ماہ، اپوزیشن سے محاذ آرائی عرو ج پر رہی
لاہور (فرخ سعید خواجہ) پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت نے وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں اپنے تین ماہ گزشتہ روز مکمل کرلئے۔ ان تین ماہ کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی عروج پر پہنچ گئی جس سے حکومت کو اپنی پارلیمانی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تین ماہ کے عرصے میں قومی اسمبلی میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کا تقرر نہ ہوسکا۔ قائد حزب اختلاف میاں شہبازشریف کو چیئرمین بنانے پر پی ٹی آئی رضامند نہ ہوسکی۔ اپوزیشن نے احتجاجاً قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل میں عدم تعاون کیا جس کے باعث نہ صرف قائمہ کمیٹیاں قائم نہ ہوسکیں بلکہ ان تین مہینوں میں پارلیمنٹ میں قانون سازی کا عمل بھی بری طرح متاثر ہوا۔ تین ماہ میں حکومت صرف فنانس ترمیمی بل پاس کروا سکی۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں میں وزیراعظم عمران خان کی شرکت بھی واجبی سی رہی۔ تین ماہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے 22 اجلاسوں میں سے وزیراعظم عمران خان نے صرف 5 اجلاسوں میں شرکت کی۔ سینٹ کے 25 اجلاسوں میں سے وزیراعظم عمران خان نے صرف ایک اجلاس میں شرکت کی جس پر انہیں اپوزیشن کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے 18 اگست، قومی اسمبلی کے ارکان نے 13 اگست کو حلف اٹھایا تھا۔ 15 اگست اور 17 اگست کو ہونے والے اجلاسوں میں سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور وزیراعظم کا انتخاب کیا گیا جن میں عمران خان شریک ہوئے۔ 18 ستمبر کو وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے جب فنانس ترمیمی بل پیش کیا اس اجلاس میں بھی وزیراعظم عمران خان شریک ہوئے جبکہ 2 اکتوبر اور 3 اکتوبر کے اجلاسوں میں فنانس بل کی منظوری کے مرحلے میں بھی دونوں دن انہوں نے شرکت کی۔ ان کی سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت نہ کئے جانے پر اپوزیشن نے اپنی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور 3 ماہ میں کئی مرتبہ عمران خان کے اس وعدے کی ایوان میں بازگشت سنائی دی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ ہر ہفتے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک دن وقفہ سوالات میں ارکان کے سوالوں کے جواب دیا کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکے۔ تاہم حکومتی جماعت کی جانب سے وزیراعظم کے ہر سیشن کے پہلے بدھ کو ارکان کے سوالوں کا جواب دینے کا پابند بنانے کیلئے قومی اسمبلی رولز میں ترمیم کی تحریک پیش کی گئی لیکن رولز میں ترمیم تاحال نہیں ہوسکی۔