آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کا کراچی میں سکیورٹی کی صورتحال مزید بہتر بنانے کا عزم
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ کراچی میں سکیورٹی صورتحال کو مزید بہتر بنائیں گے، کراچی قومی معیشت میں انجن کی حیثیت رکھتا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے گزشتہ روز کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا جہاں ڈی جی رینجرز نے سربراہ پاک فوج کو صوبے بھر کی سکیورٹی صورتحال پر بریفنگ دی۔ انہیں کراچی میں امن و امان پر بھی بریفنگ دی گئی۔ اس موقع پر انہوں نے کراچی میں سکیورٹی صورتحال کو مزید بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ امن و امان کی بہتری سے کراچی میں تجارتی سرگرمیاں مثبت اندازمیں جاری ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل ہمایوں عزیز بھی آرمی چیف کے ہمراہ تھے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے صوبے میں امن و امان کے قیام کے حوالے سے رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کو سراہا۔
ملک کا تجارتی ہب ہونے کی حیثیت سے کراچی کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے اور یہ طے شدہ امر ہے کہ کراچی میں امن و امان کی خرابی سے پورا ملک متاثر ہوتا ہے جبکہ کراچی پورٹ ملک کے اندر ہی نہیں، ملک سے باہر بھی تجارتی منڈیوں کے ساتھ منسلک ہے اس لئے کراچی میں امن و امان کی خرابی کے بندر گاہ پر بھی منفی اثرات ہوتے ہیں تو اس سے اندرونی اور بیرونی تجارتی سرگرمیاں یکساں متاثر ہوتی ہیں، جبکہ کراچی کا پہیہ جامد ہوتا ہے تو اس سے ملک بھر میں تجارتی کاروبار جامد ہو کر رہ جاتا ہے۔ کراچی کا امن و امان خراب کرنا ملک کی اقتصادی ترقی کا سفر روکنے کے مترادف ہے جبکہ کراچی کی بدامنی سے پورے ملک کی سٹاک مارکیٹ بیٹھ جاتی ہے۔
70ء کی دہائی تک کراچی امن و آشتی کا گہوارا تھا اور اپنے مفہوم کے مطابق جگمگاتا روشنیوں کا شہر تھا جہاں دن ہی نہیں، راتیں بھی جاگتی تھیں اور اس ناطے سے سیاحوں کا رخ بھی کراچی کی جانب ہوتا تھا، مگر جنرل ضیاء الحق کی فوجی آمریت نے آسیب کے سائے کی طرح اس ہنستے بستے شہر اور تجارتی سرگرمیوں کے مرکز کراچی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور 80ء کی دہائی کا آغاز اس شہر بے مثال کاامن و امان تاراج کرنے کے اسباب کے ساتھ ہوا۔1971ء کے سانحۂ سقوط ڈھاکہ کے بعد کراچی ہی قومی اتحاد و یکجہتی کی علامت بنا تھا جس نے بنگلہ دیش سے ہجرت کرنے والے پاکستانیوں کو بھی اپنے وسیع دامن میں پناہ دی اور ان کی خوراک ، رہائش کے علاوہ ان کے بچوں کی تعلیم کے بھی اسباب نکالے اور اسی طرح کراچی کی تجارتی سرگرمیوں سے باقی ماندہ پاکستان کی معیشت کو اپنے پائوں پرکھڑا کرنے میں مدد ملی۔ یہ شہر سندھیوں ہی نہیں ملک میں آباد دیگر قوموں کیلئے بھی اپنا دامن پھیلا کر قومی اتحاد و یکجہتی کا عملی نمونہ بنا۔
جنرل ضیاء الحق نے جمہوریت کی عملداری کی بساط الٹا کر 1977ء میں ملک میں مارشل لاء مسلط کیا تو انہیں اپنے اقتدار کو سہارا دینے کیلئے علاقائی اور لسانی تنظیموں کی ضرورت محسوس ہوئی۔80ء کی دہائی کے آغاز میں الطاف حسین کراچی میں مہاجر قومیت کے نام پر ایم کیو ایم (مہاجر قومی موومنٹ) کی بنیاد رکھ چکے تھے چنانچہ ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کی ضرورت کے تحت ان کی سرپرستی شروع کردی جس سے امن و آشتی کے گہوارا کراچی میں لسانی منافرت کے فروغ ملنے سے امن و آشتی کے تہہ و بالا ہونے کا آغاز ہوا۔ الطاف حسین کوجودرحقیقت بھارتی ایجنٹ کے طور پر پاکستانی قوم کو منتشر کرنے کا ایجنڈا رکھتے تھے۔مارشل لاء کی چھتری کے نیچے خوب کھل کھیلنے کا موقع ملا چنانچہ انہوں نے اپنی لسانی تنظیم میں باقاعدہ عسکری ونگ بنا کر کراچی میں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرنے کی بھی بنیاد رکھی اور اسی فضا میں بھتہ خوری اور قبضہ مافیا کو فروغ دے کر کراچی کے تاجروں ہی نہیں پرامن شہریوں کو بھی عدم تحفظ سے دوچار کردیا۔ اگرچہ میاں نوازشریف کے پہلے دور حکومت میں ایم کیو ایم کی تشدد اور دہشت گردی پر مبنی سرگرمیوں کے باعث اس کے خلاف فوجی آپریشن ہوا جس کے دوران کراچی کے شہریوں پر توڑے جانے والے ایم کیو ایم کے مظالم کی داستانیں بھی زبانِ زد عام ہوئیں اور الطاف حسین نے ملک کے باہر راہ فرار اختیار کر لی مگر ہمارا یہ المیہ ہے کہ ضیاء آمریت کے بعد منتخب جمہوری ادوار حکومت میں بھی سیاسی مفادات اور مفاہمتوں کی بنیاد پر ایم کیو ایم کی سرپرستی کرکے اس کی بلیک میلنگ کی سیاست کو فروغ دیا جاتا رہا جبکہ اس کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے باعث کراچی کا امن عملاً تاراج ہو گیا۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں اس وقت کے وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر نے کراچی اور سندھ میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا تو اس کے ذیلی دفاتر اور عقوبت خانوں سے برآمد ہونے والے بھارتی ساختہ اسلحہ کے ڈھیر لگ گئے۔ اس کے باوجود ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کی قیادت کی مجبوری بنی رہی جسے پیپلزپارٹی کے وفاقی اور صوبائی اقتدار کا حصہ بنایا جاتا رہا اور الطاف حسین لندن میں بیٹھ کر یہاں منافرت کی فضا کو فروغ دیتے رہے جب انہوں حد سے تجاوز کرتے ہوئے پاکستان، بانیان پاکستان اور افواج پاکستان کو کھلے عام گالی دینا شروع کی تو فوجی قیادت کے ایماء پر ان کی گرفت کے اقدامات کا آغاز ہوا اور بالآخر ان کے ٹیلی فونک خطابات پر پابندی عائد کردی گئی۔ نتیجتاً ایم کیو ایم مختلف حصوں میں تقسیم ہو گئی۔
چونکہ امریکی نائن الیون کے بعد جرنیلی آمر مشرف کے افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی بننے سے پاکستان پر بھی اس جنگ کے منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہوئے اور یہاں ردعمل میں ہونے والے خود کش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کے باعث ملک کی سلامتی کمزور ہونے کا تاثر پیدا ہوا اس لئے ہمارے دشمن بھارت کو پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ملک میں امن و امان کی صورتحال مزیدخراب کرنے کا مزیدموقع مل گیا۔ اس کی آڑ میں ایم کیو ایم کو کراچی میں اپنی تخریبی سرگرمیاں بڑھانے کا بھی موقع مل گیا جس سے کراچی کا امن مزید خراب ہوا۔
یہی وہ حالات تھے جو کراچی میں رینجرز کے ٹارگٹڈ آپریشن کے آغاز کا باعث بنے۔ اس آپریشن کے دوران بھی ایم کیو ایم کے ذیلی دفاتر سے بھارتی ساختہ اسلحہ برآمد ہوتا رہا۔یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ یہ آپریشن سیاسی مجبوریوں اور ترجیحات کو بالائے طاق رکھ کر برقرار رکھا گیا جس سے کراچی کے امن کی بحالی میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی جبکہ الطاف حسین پر پابندی لگنے سے ایم کیو ایم کے تقسیم ہونے کے باعث بھی اس تنظیم کی تخریبی سرگرمیوں میں نمایاں کمی ہو گئی، چنانچہ گزشتہ دو سال سے کراچی کی روشنیاں اور امن و امان واپس لوٹ آنے کی فضا ہموار ہونا شروع ہوئی جو اب 70ء کی دہائی والے کراچی کی بحالی پر منتج ہو رہی ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کراچی کی رونقیں پاک فوج اور رینجرز کے آپریشنز اور دوسرے اقدامات کے نتیجہ میں ہی بحال ہوئی ہیں اور آج کراچی دوبارہ ملک کی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن رہا ہے۔ اگر وہاں لسانی بنیادوں پر کی جانیوالی سیاست کے آگے مستقل بند باندھ دیا جائے تو اس سے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ کراچی اور ملک کا امن برباد کرنے کا ہمارے دشمن بھارت کا ایجنڈہ بھی ناکام ہو جائے گا۔ آج سی پیک کی کامیابی کی خاطر ہمیں کراچی کے امن وامان کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز کراچی اور رینجرز ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کرکے اسی تناظر میں کراچی کو قومی معیشت کا انجن قرار دیا ہے اور اس کی سکیورٹی کی صورتحال مزید بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ کراچی میں چونکہ رینجرز کے آپریشن کی کسی بھی وقت دوبارہ ضرورت پڑ سکتی ہے اس لئے رینجرز کے دستے وہاں برقرار رکھے گئے ہیں جس سے امن و امان خراب کرنے کے در پے عناصر میں خوف وہراس کی فضا برقرار رہے گی۔
ہماری سکیورٹی فورسز نے جہاں سرحدوں پر جانفشانی کے ساتھ فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے ملک کی سالمیت کے خلاف دشمن کے عزائم کے آگے بند باندھا ہوا ہے وہیں دہشت گردی کی جنگ میں قربانیوں کی بے مثال داستانیں رقم کرتے ہوئے ملک کے اندر بھی انتشار و افتراق کی بنیاد پر ملک کی سالمیت کمزور کرنے کی دشمن کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دی۔ آج وطن عزیز امن و آشتی کا گہوارا نظر آ رہا ہے تو اس میں یقیناً ہماری سکیورٹی فورسز کا نمایاں عمل دخل ہے۔ کراچی میں سکیورٹی صورتحال مزید بہتر بنانے سے متعلق آرمی چیف کے عزم سے کراچی کے دوبارہ تجارتی ہی نہیں سیاحتی مرکز بننے کی راہ بھی ہموار ہو گی۔