پیر ‘ 10؍ ربیع الاوّل 1440 ھ ‘ 19 ؍ نومبر2018ء
کیا میری جپھی رافیل ڈیل تھی۔ سدھو کا مودی کو کرارا جواب
بھارت کے اگلے برس ہونے والے ریاستی الیکشن مہم میں ایک بار پھر نوجوت سنگھ سدھو کا دورہ پاکستان موضوع بحث بن گیا ہے۔ بھارتی میڈیا ، وزیراعظم اوران کی انتہا پسند جماعت کے حامی مسلسل سدھو پر الزام تراشیاں کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز ایک پروگرام میں سدھو نے بھی جوابی حملہ کچھ ایسا کیا کہ سکھوں کی بجائے ہندوئوں کے بارہ بج گئے۔ سدھو نے وزیراعظم مودی کو براہ راست نشانہ بنایا اور کہا ہے کہ عمران نے انہیں کیوں نہیں بلایا۔ صرف یہی نہیں رافیل طیاروں میں ڈیل کے الزام کو سدھونے اپنی پاکستان کے آرمی چیف سے جپھی کے ساتھ جوڑ کر کہا کہ یہ کوئی رافیل ڈیل نہیں تھی۔ اب پورا بھارتی میڈیا ایک بار پھر نوجوت سنگھ سدھو پر برس رہا ہے اور وہ مسلسل نشانے پر ہیں۔ مگر ٹی وی پروگراموں کے موجودہ کامیڈین کمپیئر اور سابقہ کرکٹ کھلاڑی بھی چوکنے ہیں۔ ہر الزام پر ایسا چوکا یا چھکا لگاتے ہیں کہ مودی سرکار کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ ویسے بھی 2020ء قریب ہے۔سکھوں نے اسے خالصتان کے لئے ریفرنڈم کا سال قرار دیا ہے۔ بھارت پوری کوشش میں ہے کہ عالمی سطح پر خالصتان تحریک کو کوئی حمایت حاصل نہ ہو مگر سکھ قوم ابھی تک گولڈن ٹمپل کی بربادی اور اندراگاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے قتل عام کو نہیںبھولی۔ اب حکومت پاکستان کو بھی چاہئے کہ ذرا اس آگ کو مزید تیز کرے اور کرتار پور بارڈر کھولنے کا اعلان کر ہی دے تاکہ بھارت سرکار جل بھن جائے۔ بھارت سوائے جلنے کڑھنے کے اور کر ہی کیا سکتا ہے۔ سو اسے جلنے دیں۔ ذرا پاکستانی بھی تو اس صورتحال کا مزہ لیں…
٭…٭…٭…٭
بیرون ملک مزید 600 پاکستانیوں کی
جائیدادوں کا سراغ مل گیا
بیرون ملک جائیدادوں کا اب تک ہمارے ادارے صرف سراغ لگانے میں ہی کامیاب نظر آتے ہیں۔ فی الحال کان ترس گئے ہیں کہیں سے یہ خوشخبری بھی ملے کہ اتنے ارب روپے واپس پاکستان لے آئے ہیں جو ملک کی تعمیر و ترقی پر یا ڈیموں کی تعمیر پر یا پھر بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لئے استعمال ہوں گے۔ اب یہ سارے اربوں کھربوں ڈالر پاکستانیوں کے لئے دور کے ڈھول سہانے بنے ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں سنا تو جا سکتا ہے مگر انہیں دیکھنا ممکن نہیں۔ اب یہ نئی 600 پاکستانیوں کے جائیدادوں کی فہرست تو کافی طویل ہے۔ مگر کیا یہ ممکن ہے کہ ان کو فروخت کر کے سرمایہ پاکستان واپس لایا جائے۔ فی الحال تو یہ دیکھنا ہے کہ یہ سب ناجائز طریقے سے بنی ہیں یا جائز یہ تو نہیں کہ ہم جسے چاہیں جائز قرار دے دیں جسے چاہیں ناجائز۔ کیا بہتر نہیں کہ جن لوگوں کی یہ جائیدادیں ہیں انہیں موقع دیا جائے کہ وہ بھی 25 فیصد جرمانہ اور 25 فیصد ٹیکس ادا کر کے ان جائیدادوں کو علیمہ خان کی طرح جائز اور قانونی حیثیت دلوائیں۔ یوں حکومت کے خزانے میں بھی معقول رقم آ جائے گی اور جائیدادوں کا مالک بھی قانونی اور جائز حقدار بن کر بے خوف ہو جائیں گے اور انہیں کوئی غیر قانونی یا ناجائز جائیداد کا طعنہ نہیں دے سکے گا …
٭…٭…٭…٭
سپریم کورٹ نے لکنت کا شکار پی ایس سی
امیدوار کو اے سی نہ لگانے کا نوٹس لے لیا
اسے ہماری معاشرتی بے حسی کہہ لیں یا بدقسمتی کہ ہمارے کرتا دھرتا ایک اہل شخص کو بھی کسی معمولی معذوری کی وجہ سے اس کا حق دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر سید زبیر صرف پی ایس سی ہی نہیں 2011 میں سی ایس ایس کے امتحان بھی کامیاب ہوئے مگر حتمی انٹرویو میں انہیں اسی لکنت کی وجہ سے فیل قرار دیا گیا یہ وہ مقابلے کا امتحان ہوتا ہے جس میں ہمارے سی ایس ایس کا انٹرویو لینے والوں کے بچے بھی نہیں پہنچ پاتے۔ جب یہ بیماری انکی تعلیمی صلاحیتوں میں ذہنی قابلیت میںحائل نہیں ہو سکی توانٹرویو لینے والوں نے کس طرح حتمی انٹرویو میں فیل قرار دیا گیا۔ کاش ان افسران نے جو انٹرویو لیتے ہیں، وہ بھارتی فلم دیکھی ہوتی جس میں ہچکی لینے والی استانی کس طرح معاشرے کے دھتکارے ہوئے بچوں کو کامیاب طالب علم بناتی ہے۔ معذوری انسانی اختیار میں نہیں۔ پوری دنیا میں ایسے افراد کو خصوصی درجہ دیا جاتا ہے اور پھر اگر وہ سی ایس ایس یا بی ایس سی کا امتحان پاس کر لیتے ہیں تو انٹرویو لینے والوں کواس سے کیا تکلیف کہ وہ ہکلاہٹ کا شکار ہیں۔ اب انہوں نے سی ایس ایس کر کے کوئی سیاسی مجمع لگا کر تقریریں تو نہیں کرنی ہوتیں ان سے فن و خطابت کا کورس کروانا ہوتا ہے حکومت کو ان کے کام اور قابلیت سے دلچسپی ہوتی ہے۔ اب سپریم کورٹ اس نوجوان کو بھی بصارت سے محروم اس نوجوان کو طرح انصاف فراہم کرے جسے عدالتی حکم پر جج بنایا گیا ہے …
٭…٭…٭…٭
گلگت بلتستان میں بلاول کا بوسہ لینے کی کوشش کرنے والے پر سکیورٹی اہلکاروں کا تشدد
گلگت بلتستان کے دورے میں سکیورٹی والوں نے پیپلزپارٹی کے ایک محب ورکر کو اس وقت روئی کی طرح دھنک ڈالا جب وہ فرط جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے قائد بلاول زرداری کی طرف بڑھ کر ان کا بوسہ لینے کے لئے بڑھا۔ اب نیا دور ہے پہلے والے جذباتی کارکن بھی نہیں رہے نہ ان کے قائد رہے جو جذبات کی قدر کرتے تھے۔ بھٹو مرحوم عوامی رہنما تھے انہیں ہر جگہ عوامی محبت و جذبات کا یہ والہانہ اظہار دیکھنے کو ملتا تھا مگر انہوں نے کبھی ناک بھوں نہیں چڑھائی نہ کسی کارکن کو دھکا دیا۔ سکیورٹی والوں کی کیا جرات تھی کہ وہ بھٹو اور عوام کے درمیان آتے۔ اب تو یہ زمانہ ہے کہ کارکنوں سے خاص طور پر غریب عوام سے ہاتھ ملانے کے بعد یہ عوامی رہنما جراثیم کش محلول سے ہاتھ دھوتے ہیں یا جراثیم کش ٹشو پیپر سے فوراً ہاتھ اور چہرے صاف کر لیتے ہیں۔ اب وہ محبتوں اور عقیدتوں کا زمانہ گزرگیا جب کارکن والہانہ محبت میں آ کر ہاتھ اور ماتھے کا بوسہ لیتے۔ اب تو سکیورٹی حصار میں قیدیوں کی طرح مقید یہ عوامی رہنما صرف دور سے عوام کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ہیں۔ شیشے کی موٹی دیواروں کے پیچھے سے خطاب کرتے ہیں۔ سٹیج بھی اب بلند و بالا ہوتے ہیں یعنی ہم عوام سے اوپر ہیں کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے۔ اب بلاول کے سکیورٹی والوں کو خاص طور پر خیال رکھنا پڑے گا کہ کہیں پھر کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھے کیونکہ اکثر لوگ شاید بلاول کو بچہ سمجھ کر ان کا بوسہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ازراہ شفقت بھی ہو سکتا ہے۔
٭…٭…٭…٭