17 نومبر کو ان کی 12ویں برسی منائی گئی۔جدوجہد آزادی میں 1946ء کے انتخابات سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان تاریخی انتخابات میں بنگالی مسلمانوں نے 97 فیصد ووٹ دے کر پاکستان کا حصول ممکن بنایا۔ اس عظیم جدوجہد میں جن شخصیتوں نے کلیدی کردار ادا کیا ان کی صف اول میں جناب محمود علی کا شمار ہوتا ہے۔ محمود علی تحریکِ پاکستان کے متحرک رہنما اور قائداعظم کے سپاہی تھے۔ وہ وطن عزیز پاکستان کی تاریخ میں جدوجہد آزادی سے قیامِ پاکستان تک اور اس کے بعد استحکامِ پاکستان کے لئے قومی کوششوں میں نظریاتی وفاداری اور غیر متزلزل عزم وعمل کا روشن مینار ہیں۔ محمود علی بنیاد پرست انقلابی پاکستانی اور درویش سیاست دان تھے۔ جنہوں نے دو قومی نظریۂ میں اپنے ایمان کو آخری دم تک قول اور فعل سے ثابت کیا۔
جب 1971ء میں ننگی جارحیت کے ذریعے بھارت نے مشرقی پاکستان کو زبردستی ہم سے الگ کیا تو محمود علی نے اپنے ہی وطن میں ہجرت کی اور مرتے دم تک دو قومی نظریہ کے علمبردار اور افکار قائداعظم کے نقیب رہے ۔ ان کے انتقال پر جنرل (ر) حمید گل نے کہا تھا کہ ملک دو لخت ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ نظریۂ یا خیال بھی تقسیم ہوگیا۔ قائداعظم کی قوم دراصل تین مملکتوں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں تقسیم ہوچکی ہے۔ اس لئے دو قومی نظریۂ نہ تو ختم ہوا ہے۔ اور نہ ہی خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیا ہے بلکہ یہ عالمگیر حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ محمود علی اسی عظیم تر پاکستان کے علمبردار تھے جس میں برصغیر کے مسلمانوں کو ایک طاقت بنانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے 1985ء میں تحریکِ تکمیلِ پاکستان کی بنیاد رکھی اور زندگی کی آخری سانس تک ملک کے قریہ قریہ میں اس کے مقاصد کے فروغ کے لئے سرگرم عمل رہے۔ 17 نومبر 2006ء کو لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے آخری الفاظ ’’کشمیر پر ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے‘‘ تھے۔ وطنِ عزیز کے یہ مایہ ناز سُپوت یکم ستمبر 1919ء کو عالم باغ سنام گنج سلہٹ میں پیدا ہوئے۔ ابھی ان کی عمر صرف ڈیڑھ برس تھی کہ ان کے والد مولوی مجاہد علی داغ مفارقت دے گئے۔ مولوی مجاہد علی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قانون میں گریجویشن کی تھی ۔ محمود علی کے دو چچا مولوی منور علی اور مولوی مصادر علی نے بھی خاصی شہرت پائی۔ یہ دونوں علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہوئے تھے۔ مولوی منور علی پیشہ کے اعتبار سے وکیل تھے۔ وہ سات سال تک آسام حکومت کے وزیر رہے۔
محمود علی نے 1937ء میں سنام گنج جوبلی ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ایم سی کالج سلہٹ میں داخلہ لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی سنیٹ ایڈمنڈز کالج اور سنیٹ انتھونی کالج شیلانگ میں داخلہ لے لیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان میں سے کسی بھی ایک کالج میں ان کی پسند کے تمام مضامین موجود نہیں تھے۔ انہوں نے انگریزی میں آنرز کیا۔ 1942ء میں انہوں نے گریجویشن کی اور کاروبار سے منسلک ہوگئے۔
جب راجہ امیر احمد خاں آف محمود آباد، آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی صدر تھے۔ محمود علی صوبہ آسام مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ 1944ء میں وہ آسام مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے رکن بنے۔ اور 1946ء میں وہ آسام صوبائی مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر صرف 27 برس تھی۔ انہوں نے یہ منصب سنبھالتے ہی آسام میں Line System کے خاتمہ کی تحریک شروع کردی۔ قیام پاکستان کے وقت صوبہ سرحد اور سلہٹ میں ریفرنڈم کا فیصلہ ہوا۔ آپ نے سلہٹ کو پاکستان میں شامل کرانے کے لئے جدوجہدکی۔ اس کا نتیجہ 8 جولائی 1947ء کے ریفرنڈم میں سامنے آیا۔ جب لوگوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔1953ء میں حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں کا متحدہ محاذ بنا۔ گنا تنتری دل بھی اس میں شامل ہوگئی۔ محمود علی نے 1954ء میں متحدہ محاذ کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا ور اپنے علاقے سنام گنج سے مشرقی پاکستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ جناب اے۔ کے۔ فضل الحق کی وزارت قائم ہوئے صرف 87 دن گزرے تھے کہ مشرقی پاکستان میں گورنر راج نافذ کردیا گیا اور صوبائی وزارت کو بلا جواز برطرف کردیا گیا۔ کئی ہزار کارکنوں اور معروف رہنمائوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ محمود علی اُن کی اہلیہ، بچوں اور کئی دوسرے اہلِ خانہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ چھ مہینے بعد اُن کی اہلیہ اور بچوں کو رہا کردیا گیا۔ تاہم انہیں چودہ مہینے کے بعد رہائی نصیب ہوئی۔ اُن کی رہائی کے فوراً بعد گورنر جنرل غلام محمد نے دوسری دستور ساز اسمبلی تشکیل دی۔ محمود علی 1955ء میں اس دستور ساز اسمبلی کے رُکن منتخب ہوگئے۔ جب آئین سازی کا کام جاری تھا۔ انہیں نومبر 1955ء میں ایک بار پھر سیفٹی ایکٹ کے تحت کراچی جیل بھیج دیا گیا۔ وہاں سے انہیں ڈھاکہ سنٹرل جیل منتقل کردیا گیا۔ جہاں وہ 3 جنوری 1956ء تک زیرِ حراست رہے۔ ستمبر 1956ء میں ان سے کہا گیا کہ وہ مشرقی پاکستان عوامی لیگ اور گنا تنتری دل کی مخلوط کابینہ میں شامل ہو جائیں۔ انہیں ریونیو اور جیل خانہ جات کی وزارت ملی۔ وہ کچھ عرصہ کے لئے عارضی طور پر تعلیم ،پبلک ہیلتھ، زراعت، ایکسائز اور امداد باہمی کے محکموں کے بھی وزیر رہے۔ اپنے دور وزارت کے دوران انہوں نے زمینی اصلاحات سے متعلق ایک کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس کی سفارشات کے اطلاق کا آغاز اپنی ذات سے کیا۔ 29 جنوری 1957ء کو وہ کابینہ میں اختلاف کی بنا پر مستعفی ہو گئے۔ اسی روز پورے ملک سے جمہوریت نواز کارکنوں اور رہنمائوں کا ایک کنونشن ڈھاکہ میں ہوا۔ تاکہ پاکستان گناتنتری دل کی طرح وسیع بنیادوں پر ایک جمہوری پارٹی تشکیل دی جاسکے۔ گنا تنتری دل اس نئی جماعت میں ضم ہوگئی۔ اور محمود علی نئی جماعت کی مشرقی پاکستان شاخ کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔
1967-68ء سے محمود علی نے پورے پاکستان کا دورہ کیا تاکہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے آٹھ نکات کے حق میں رائے عامہ ہموار کی جاسکے۔ 8 جنوری 1969ء کو آٹھ سیاسی جماعتوں پر مشتمل ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی تشکیل دی گئی تاکہ پاکستان میں جمہوری سرگرمیوں کو مزید فروغ حاصل ہوسکے۔پاکستان نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ دونوں تنظیموں کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے انہوں نے اس گول میز کانفرنس میں شرکت کی جو صدر ایوب خاں نے فروری 1969ء میں طلب کی تھی۔ 1969ء میں چار سیاسی جماعتوں نے اپنا تشخص ختم کرکے پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی بنائی۔ اس پارٹی کی تشکیل میں محمود علی نے اہم کردار ادا کیا۔ جناب نورالامین اس جماعت کے سربراہ منتخب ہوئے۔ جبکہ محمود علی کو اس کا سینئر ترین نائب صدر منتخب کر لیا گیا۔
جون 1971ء میںمحمود علی نے عالمی دورہ کیا تاکہ دوسرے ملکوں میں پاکستان کا امیج بہتر بنایا جاسکے۔ ان دنوں بھارت پوری شدت کے ساتھ پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے میں مصروف تھا۔ انہوں نے پاکستان کے حق میں عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے متعدد افریقی اور یورپی ملکوں کا دورہ کیا۔ بے پناہ محنت اور خلوص کے باعث وہ جنرل اسمبلی میں 105 ملکوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ جنہوں نے 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھارت کو جارح قرار دیا۔
1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد مغربی پاکستان میں نئی حکومت برسراقتدار آئی تو محمود علی کو صدر کا مشیر برائے سیاسی امور مقرر کیا گیا۔ بعد میں وہ قومی امور، بیرون ملک پاکستانیوں کے امور اور جیل خانہ جات کے وزیر مملکت مقرر ہوئے۔ دسمبر 1974ء میں انہیں قومی کونسل برائے سماجی بہبود کا چیئرمین مقرر کر دیا گیا۔ 5 جولائی 1977ء کو تیسرا مارشل لاء نافذ ہوا۔ کچھ عرصہ بعد انہیں صدر مملکت کا مشیر برائے شہری امور، ہائوسنگ اینڈ ورکس مقرر کر دیاگیا۔ تاہم چیئرمین قومی کونسل برائے سماجی بہبود کا عہدہ مسلسل اُن کے پاس رہا۔ جولائی 1978ء میں نئی کابینہ بنی تو انہیں صحت، سماجی بہبود اور آبادی کی منصوبہ بندی کے محکمے دے دیئے گئے۔ بعدازاں وہ 1993ء تک وفاقی وزیر اور سماجی بہبود کی قومی کونسل کے چیئرمین رہے۔ اس کے بعد وہ وفاقی وزیر کے عہدے پر وفات تک فائز رہے۔
محمود علی پاکستان کے اُن عظیم سپوتوں میں سے ایک تھے جن کے لئے مادرِ وطن کا تقدس اور استحکام ہی سب کچھ تھا۔ وہ متحدہ پاکستان کے داعی تھے۔ اور قرارداد لاہور کی تکمیل کے لئے ساری زندگی سرگرم عمل رہے۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے 1985ء میں تحریک تکمیل پاکستان کی بنیاد رکھی ۔ وہ پاکستان کی عظمت، پاکستان کی ترقی، یہی ان کا سرمایۂ فکر وعمل تھا۔ اور اسی سے ان کی زندگی عبارت رہی۔ وہ اپنی قسم کے واحد پاکستانی تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے عزت سے زندہ رہنا اور مسلسل جدوجہد کرنا سکھایا۔ اور وہ انگریز کی عیاری، ہندو کی اصول شکنی، دوست نما دشمنوں اور قدیم نظریاتی دشمنوں کے کردار سے نئی نسل کو آگاہ کرنے کے لئے کوشاں رہے۔ایسے لوگ مرا نہیں کرتے وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024