سینٹ میں پی ٹی آئی کی 2 نشستیں بڑھ گئی ہیںاور ن لیگ کی کم اتنی ہی ہو گئی ہیں۔ پی ٹی آئی کے ولید اقبال کو 184 جبکہ ن لیگ کے سعود مجید کو 176 ووٹ ملے ۔ ہارجیت میں فرق صرف 8 ووٹوں کا ہے ۔ پی ٹی آئی اور ن لیگ میں جوڑ برابر کا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے سیاسی لغت میں کئی نئی اصطلاحات متعارف کرائیں۔ ’’تبدیلی آ گئی ہے‘‘ ’’نیا پاکستان‘‘ اور اب تو ان کا نیا قول سامنے آیا ہے کہ یوٹرن نہ لینے والا بیوقوف ہے۔ ان کے نزدیک ہٹلر، نپولین نے یوٹرن نہ لیکر شکست کھائی، یوٹرن نہ لینے والا لیڈر نہیں ہوتا۔ ان کے نقطۂ نظر سے اتفاق اس لئے مشکل ہے کہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے جو کہا وہ کر کے دکھایا وہ نہ جھکے نہ بکے نہ یوٹرن لیا اور ایک آزاد خود مختار سیاست قائم کر کے دکھائی۔ ہماری حکومتوں کی قسمت میں بیل آئوٹ لینا اور دینا لکھا ہے۔ بیل آئوٹ دراصل عدالتی مچلکوں کا دوسرا نام ہے جس کے جمع کرانے سے معیشت کو دیوالیہ جیل سے رہائی ملتی ہے۔ عمران خان نے سعودی عرب، امارات اور چین سے مچلکے حاصل کئے ہیں چوتھا مچلکہ آئی ایم ایف سے لینے جا رہے ہیں۔ پی آئی اے اور پاور کمپنیوں کو 53 ارب کا بیل آئوٹ پیکج ملنے والا ہے۔ آئی ایم ایف کو بھی ہمارے بجلی کے گردشی قرضوں کے 1400 ارب روپے پر تشویش ہے۔
یہ رقم 700 ارب کی منی لانڈرنگ سے دوگنی ہے۔ حکومت نے گردشی قرضے کے لئے 35 ارب اور پی آئی اے کو 17 ارب ادائیگیوں کی منظوری دی ہے۔ آڈیٹر جنرل نے سرکاری اخراجات میں 1500 ارب روپے سے زائد مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا ہے۔ ٹرین دوچار سٹیشنوں سے گزرتی ہے تو مسافروں کو اس کی رفتار کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح عمران حکومت کی رفتار سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ زرداری جیل جا سکتے ہیں۔ شریف برادران تو سلاخیں دیکھ چکے ہیں۔ قبر کاخوف قبر سے باہر اورجیل سے باہر ہوتا ہے ۔ پابند سلاسل ہو کر ڈر مٹ جاتا ہے۔اپوزیشن کا کردار زبانی کلامی ہے وہ تو اے پی سی بھی نہ کر سکی ۔ دنیامیں ایسے کتنے اپوزیشن لیڈر ہوں گے جو بار بار ریمانڈ پر پابند سلاسل رہتے ہیں۔ کپڑوں کا ڈرائی کلین ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اعمال کا ڈرائی کلین ہونا ضروری ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کے دبائو میں آنا شروع ہو گئی ہے۔ بجلی پر سبسڈی واپس لینے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ گھریلو صارفین سے 146 ارب روپے کی سب سڈی واپس لی جا رہی ہے۔ بجلی کی قیمت میں 20.70 روپے فی یونٹ اضافہ کرنے سے رانجھا (آئی ایم ایف) راضی ہو جائے گا۔ بجلی کی 6 تقسیم کار کمپنیوںکو 83 ارب اضافی ریکوری کا ہدف دیدیا گیا ہے۔ ادھر گیس کے نرخ میں 142 فیصد اضافے کے خلاف حکم امتناعی جاری ہوا ہے۔ دوائوں کی قیمتیں منجمد ہو سکتی ہیں تو ایک سال کے لیے بجلی گیس پانی دودھ چینی آٹا گھی کی قیمتیں بھی منجمد ہو سکتی ہے۔ سب سے بڑھ کر روٹی نان کی قیمت بھی منجمد ہو سکتی ہے۔ پرائیویٹ سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں کی فیسیں بھی منجمد ہوسکتی ہیں۔ کسی کی وردی بدلنے سے وہ شخص تو نہیں بدل جاتا اس کی فطرت چال چلن تو جوں کا توں رہتا ہے ۔ کیا پولیس والوں کی وردی بدلنے سے تھانہ کلچر بدل گیا تھا۔ 100 دن پورے ہونے جا رہے ہیں لیکن ان کا بیانیہ ہے کہ مشکل حالات میں حکومت سنبھالی، چند ماہ میںتبدیلی نظر آئے گی۔ پاکستان میںتین بار باوردی تبدیلی آئی اور پھر راتوں رات کیا سے کیا ہوتا رہا۔ حکومت کازور چنگ چی رکشے والوں اور موٹر سائیکل سواروں پر چلتا ہے۔ دفتروں میں فائل کا سفر سالوں مہینوں اور ہفتوں سے کم ہوکر دنوں میں طے ہونا شروع ہوتا تب لوگ سمجھتے کہ تبدیلی آئی ہے۔ بغیر سفارش اور رشوت کے ایف آئی آردرج ہونا شروع ہوئی تو تبدیلی کا احساس ہوتا ۔ لوگ جنہیں ووٹ دے کر اسمبلیوںمیںبھیجتے ہیں وہی لوگ اُن تک رسائی سے محروم رہتے ہیں۔وزیراعظم بننے سے پہلے عمران خان جلسوں کی زینت بن جاتے تھے۔ منصب اعلیٰ کے مقام پر فائز ہو کر عوام انہیں صرف ٹی وی سکرین پر ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ایک طرف دوائوں کی قیمتیں منجمد کرنے اور دوسری جانب سیمنٹ فیکٹریوں کو قیمت بڑھنے کے معاملے میں آزاد رکھنے کی تجویز ہے۔ بڑے بڑے انکشافات ہو رہے ہیں سب کے پوتڑے کھولے جا رہے ہیں 700 ارب کی منی لانڈرنگ اور 5 ہزار جعلی اکائونٹس کا سراغ لگایا گیا ہے۔ دبئی سے اقاموں کی معلومات لی جا رہی ہیں۔ سوئس بنکوں سے متعلق بڑی خبر کا انتظار ہے۔ دبئی میں جائیدادوں کی خریداری میں پاکستانیوں کا تیسرا نمبر ہے۔ ملازمین کے نام پر جائیدادیں بنائی گئیں دکھ اس بات کا ہے کہ ایسا سب کچھ کرنے والے بڑے نام ہیں لوگ ان کے نعرے لگاتے اور ان کی گاڑیوں پر پھول نچھاور کرتے ہیں کیا یہ ملک جعل سازوں کی بالادستی کے لئے بنایا گیا تھا چند سال پہلے جعلی ڈگریوں کا شور کل عالم نے سنا اس سے پہلے گھوسٹ سکولوں گھوسٹ سرکاری ملازموں اور گھوسٹ پنشنروں کا چرچا رہا اور دور حاضر میں منی لانڈرنگ کی صدائیں پہلے لوگ صرف کپڑوں والی لانڈری کو ہی جانتے تھے اب پتہ چلا کہ پینٹ کوٹ ہی نہیں کرنسی نوٹوں کی بھی لانڈرنگ ہوتی ہے لانچوں سے لوگ ہی نہیں بھیجے جاتے ہیں پیسے بھی بھیجے جاتے ہیں کونسا شہر ایسا ہے جہاں لینڈ مافیا کا ڈیرہ آباد نہیں ہے ہائوسنگ سوسائٹیوں کی بھرمار ہے چور چور کی صدائیں اسمبلی کے اندر ہی نہیں باہر بلند کرنے کی زیادہ ضرورت ہے بجلی گیس ٹیکس چوروں کو چور نہ کہیں تو کیا کہیں۔ کیا کوئی حاجی نمازی قتل کا مرتکب ہو جائے تو اسے قاتل ہی کہا جائے گا۔ یا وہ قتل کرنے کے بعد بھی حاجی صاحب کہلواتا رہے گا زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ انتہائی پارسا اور اعلیٰ درجے کا صادق اور امین رہنما قائداعظم محمد علی جناح کی قوم میں کیسے کیسے کلنک کے ٹیکے سامنے آئے قائد کو علم غیب ہوتا تو ایسے ناشکروں پر قیام پاکستان کا احسان نہ کرتے۔ غربت کے خاتمے کے لئے حکومت چین کے تجربات سے استفادہ کرنے جا رہی ہے لاہور میں رات سڑکوں پرگزارنے والوں کے لئے پانچ پناہ گاہیں قائم کی جائیں گی ملک میں غرباء کی تعداد سات کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ ان کے لئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، بیت المال اور زکوٰۃ فنڈ بھی ناکافی ہے ہر حکومت نے غریبوںکے لئے بہت دعوے کئے لیکن غریب اور غربت جہاں تھی وہیں دکھائی دیتی ہے اس کی بڑی وجہ تمام ترکوششوں کے باوجود آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے تھر کے لوگوں پر کسی کو رحم نہیں آیا تھر کے بیمار بچوں اور افریقہ کے غذائی قلت کے شکار بچوں میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ برما کے مسلمانوں کی حالت زار بھی تھر کے لوگوں سے مماثلت رکھتی ہے۔ بے سہارا لوگوں کے لئے پناہ گاہیں بن جائیں گی لیکن لوگ تب بھی پارکوں، لاری اڈوں اور ریلوے سٹیشنوں کے گرد ونواح میں رات بسر کرنا نہیں چھوڑیں گے۔ گداگری بھی ایک انڈسٹری کا روپ دھار گئی ہے۔ ہیلمٹ نہ پہننے پر چالان سے زیادہ ضروری ہر چوراہے پر گداگروں کی ٹولیوں کا خاتمہ ہے۔ گداگری تجاوزات کے خاتمے کی طرح آپریشن کی محتاج ہے اس پر بھی حیرت ہے کہ تجاوزات راتوں رات جنم نہیں لیتیں۔ ذمہ دار ادارے منتھلی اور بھتہ خوری کے عوض آنکھیں بند رکھتے ہیں۔ جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو ہرچند سال بعد گرینڈ آپریشن کی سوجھتی ہے کون سا بازار ایسا ہے جہاں دکاندار نے دکان کے سامنے بھی دکان لگوا رکھی ہے اس عمل سے سارے بازار تنگ ہیں بازار گلیاں سڑکیں ہر طرح کی رکاوٹ سے پاک صاف شفاف دکھائی کیوں نہیں دیتے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار فجر کی نماز کے بعد ہر علاقے کا چکر لگانا شروع کر دیں تو ان کے سامنے صفائی کے دعوئوں کی اصلیت کھل جائے گی۔
عوام اس بات پر ضرور حیران ہیں کہ اگر شریف برادران اتنے ہی کرپٹ تھے تو انہیں تین بار اقتدار کیوں دیا گیا۔ شریف فیملی کے خلاف مزید 4 کیس نیب بھجوانے کا اعلان ہوا ہے اسی طرح پیپلزپارٹی کو اقتدار کیوں دیا گیا۔ اس سے ایک تاثر یہ ابھرتا ہے کہ جمہوری قوتیں اپنے ادوار حکومت میں کرپشن کے سوا کچھ نہیں کرتی رہیں اور غیر جمہوری قوتوں کا دور ہی صالحین کا دور تھا۔ اس زمانے کی عدلیہ نے وہ کردار کیوں نہیں ادا کیا جو جسٹس ثاقب نثار کی قیادت میں موجودہ عدلیہ انجام دے رہی ہے یہ ایسے ہی ہے جیسے تجاوزات پر چشم پوشی اختیار کرنے والے سرکاری لوگ اس وقت بیدار ہوتے ہیں جب عدلیہ ان کی آنکھوں پر پانی چھینٹے مارتی ہے نئے پاکستان کے دعویداروں کے لئے وقت ہے کہ گزرے لوگوں کے انجام سے سبق سیکھیں وقت کسی کا لحاظ نہیں رکھتا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024