ـ "رئیل اسٹیٹ بزنس "
پاکستان میں کسی بھی غریب ،امیر یامڈل کلاس کے فرد سے پوچھیں کہ سرمایہ کاری کہاں کی جائے تو ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والا فوری طور پر جواب دے گا کہ رئیل اسٹیٹ میں پیسہ لگا لو کوئی بھی چھوٹا بڑا پلاٹ خرید لو کچھ نہ کچھ منافع ہو ہی جائے گا اب کیا واقعی پراپرٹی منافع دے رہی ہے یہ اہم سوال ہے سردست صورتحال یہ ہے کہ بحریہ اور DHAسے لیکر 15ایکڑ تک کسی بھی کالونی میں فوری منافع نہیں ہے حالت یہ ہے کہ گذشتہ تین سالوں سے رئیل اسٹیٹ صرف سرمایہ محفوظ رکھنے کا سیکٹر بن گیاہے مطلب ہے کہ اگر کسی کے پاس ایک کروڑ ہیں اور وہ چاہتاہے کہ یہ پیسہ محفوظ رہے تو رئیل اسٹیٹ واحد شعبہ ہے جہاں پیسہ محفوظ ہے شرط ہے کہ اس نے پلاٹ برینڈ ڈ کالونی میں لیا ہواوپن جگہ پر پلاٹ لینا خاصا رسکی ہے کیونکہ پاکستان میں 10ہزار سے زائد قبضہ گروپ متحرک ہیں اور یہ قبضہ مافیا ہر ضلع ،تحصیل اور ٹاون کی سطح پر موجود ہیں لینڈکمپیوٹررازڈ ہونے کے بعد صرف 20فیصد قبضہ گروپوں کااثر ختم ہوا ہے باقی صورتحال جوں کی توں ہے جب پوری قوم کی سوچ ہو گی کہ صرف پراپرٹی ہی وہ واحد شعبہ ہے جہاں منافع ہے تو ایسا ہی ہوگا
پاکستان کی عدالتوں میں سول کورٹس سے لیکر سپریم کورٹس تک تقریباََ 19لاکھ مقدمے فیصلے کے منتظر ہیں جن میں سے تقریباََ 12لاکھ مقدمے زمین اور جائیداد کے معاملہ سے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کیا حال ہے جنوبی پنجاب میں 6ہزار کالونیوں کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ غیر قانونی ہیں ملتان میں غیر منظور شدہ کالونیوں کی تعداد 350سے زائد بتائی جاتی ہے اس تمام صورتحال کے باوجود تمام وسائل کے باوجود 1500ارب روپے رئیل اسٹیٹ میں موجودہیں اور ان میں اضافہ ہو رہاہے کمی نہیں آ رہی گذشتہ تین سال سے پراپرٹی کا کاروبار براہ راست منافع نہیں دے رہا لیکن اگر کسی خوش نصیب کی زمین کسی بڑی کالونی میں آگئی ہے تو اس کے مزے ہو جاتے ہیں پاکستان میں نہ لوگ صنعت کی جانب پیسہ لگاتے ہیں نہ کسی کاروبار پر توجہ دی جاتی ہے نہ ایکسپورٹ کی جانب رحجان ہے بس دو کام ہیں کسی بھی طریقہ سے بچوں کو یورپ ،امریکہ یا کسی امیر ملک میں سیٹل کرو یا پھر اچھی کالونیوں میں پلاٹ لے لو اب دیکھ لیں جنوبی پنجاب کے پس ماندہ ضلع ڈی جی خان شہر اور اسلام آباد شہر میں رئیل اسٹیٹ کا ریٹ یکساں ہے اسلام آباد میں بھی پانچ مرلہ کا مکان
ایک کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ کاہے جبکہ ڈی جی خان میں بھی پانچ مرلے کا مکان ایک کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ کاہے ڈی جی خان سے تعلق رکھنے والے ایک ملین لوگ بیرون ملک روزگار کمانے گئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ڈی جی خان کی پراپرٹی آسمان پر ہے پاکستان میں لوگوں نے 1500ارب روپے کے پلاٹ خریدے ہوئے ہیں جبکہ رئیل اسٹیٹ میں ٹوٹل سرمایہ کاری کا حجم دو ہزار ارب روپیہ ہے جس میں سے 30فیصد سرمایہ کاری فراڈ کی زد میں ہے ایک رپورٹ کے مطابق ماہانہ سات سے آٹھ ارب روپے لوگوں کے رئیل اسٹیٹ میں فراڈ کی نظر ہو جاتے ہیں بڑے شہروں میں یہ تناسب زیادہ ہے جبکہ چھوٹے شہروں میں یہ کم ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستا ن میں سرمایہ کاری کی صورتحال یہی رہے گی ایسے ملک میں جہاں پہلے سے ہی 1500ارب روپے کے پلاٹ لوگوں نے خریدے ہوئے ہیں وہاں 50لاکھ گھر حکومت بھی بنانے جا رہی ہے وہاں رئیل اسٹیٹ کا مستقبل کیا ہے یہ درست ہے کہ کسی بھی ملک میں پراپرٹی کا کاروبار
اہم ہوتاہے لیکن پاکستان میں تو کام ہی صرف اس سیکٹر میں ہو رہاہے یعنی رئیل اسٹیٹ میں اور اس وقت رئیل اسٹیٹ کی حالت اس لئے خراب ہے کہ ہر چیز کی ایک انتہا ہوتی ہے اور اس وقت یہ انتہا ہو چکی ہے رئیل اسٹیٹ میں وہ خریدار جس نے اپنا گھر بنانا ہے صرف 10فیصد ہیں جبکہ 90فیصد انوسٹر ہی ایک دوسرے سے کاروبار کر رہے ہیں جس سے رئیل اسٹیٹ کی حالت مخدوش ہے ۔