’’یوٹرن‘‘ بنیادی طورپر ٹریفک اور سفری زبان کی اصطلاح ہے۔ جس کی عملی صورت چلتے چلتے 180 درجے پرپوزیشن تبدیل کرلینا ہے یعنی مغرب کی جانب جاتے جاتے رخ مشرق کی طرف یا مغرب کی طرف جاتے جاتے رخ تبدیل کرکے مشرق کی طرف کرلیناہے۔یا دائیں سے یکدم مکمل بائیں یا بائیں جانب سے مکمل دائیں جانب مڑ جانا ہے۔ اسی لئے سیاست و حکومت میں قائم پوزیشن یا موقف میں یکسر تبدیلی کو یوٹرن سے تشبیہ دی جاتی ہے۔لیکن اگر اسے حالات کے مطابق ’’حکمت عملی‘‘ کو تبدیل کرنا کہہ دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ کیوں کہ حکمت عملی کو جب بھی سیاست و حکومت اور سفارتکاری کے حوالے سے زیربحث لایا جائے، دیکھنا یہ چاہئے کہ سفر کی سمت یکسر تبدیل کرنے کا مقصد کیا ہے؟ اور یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ جو لوگ فیصلہ کرنے کے بعد اُس پر نظر ثانی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ نااہل لوگ ہوتے ہیں۔ اس کی مثال ایک عام سے چھوٹے کاروبار کی مانند ہے کہ اگر باس نے ایک فیصلہ کرلیا اور باقی انتظامیہ اُس فیصلے سے متفق نہیں ہے تو یقینا اُس کاروبار کی بہتری کے لیے ’’باس‘‘ کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ اور جن اداروں میں ’’ون مین شو‘‘ ہوتا ہے یا فیصلے مسلط کر دئیے جاتے ہیں یا آرگنائزیشن کا مالک سسٹم کو پیچھے چھوڑ کر اپنی مرضی کا مالک بن جاتا ہے تو وہ ادارے تباہ ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں وہی ادارے ترقی کرتے ہیں جن کے فیصلے ’’آرگنائزیشن‘‘ کرتی ہے۔
لہٰذا وقت اور حالات کے مطابق فیصلے تبدیل ہو جایا کرتے ہیں… مگر! ’’اصول‘‘ تبدیل نہیں ہوتے۔ عمران خان نے اگر یوٹرن کے حوالے سے بات کی ہے تو وہ یقینا اسی پیرائے میں ہے کہ وقت اور حالات کے مطابق اگر فیصلے تبدیل کرنا پڑتے ہیں تو اس میں کوئی مذائقہ نہیں ہے، ہاں اگر وہ اپنے اصولوں سے پیچھے ہٹیں تو سب سے بڑا مخالف میں خود ہوں گا۔ اور اُن کے اصول سب پر واضح ہیں جس پر کوئی دورائے نہیں ہے کہ عوامی فلاح و بہبود… عوام کی خدمت… کرپشن کا خاتمہ… میرٹ کا قیام …سسٹم کی مضبوطی اور پاکستان کی معیشت کو آگے بڑھانا۔ اگر ان اصولوں پر عمران خان نہیں چلیں گے تو یقینا اُن میں اور سابق حکمرانوں میں کوئی فرق نہیں رہیگا۔
بادی النظر میں حکومتی پالیسی اور فیصلہ سازی وہی کامیاب ہوتی ہے جس میں حکومتی اقدامات مخصوص صورتحال کے مطابق لئے جائیں۔ بین الاقوامی تعلقات و سیاست کا معاملہ ہو یا داخلی سیاست کا، حکومتوں کو وسیع تر ملکی یاقومی مفاد کی خاطر کسی مخصوص موضوع یا اس حوالے سے اپنی جاری پوزیشن میں یکسر چونکا دینے والی تبدیلی لانا پڑ جاتی ہے۔ پھر حکومتی معاونین و مشیرزورلگاتے ہیں کہ قیادت اور حکومت کی ساکھ اور عوامی حیثیت کو محفوظ رکھنے کے لئے جلد سے جلد ناقابل اختلاف ایسا بیانیہ تیار کریں جو اچانک لی گئی مختلف قیادت یا حکومت کی پوزیشن کو دل سے ایٹ لارج درست تسلیم کرلیاجائے اوررائے عامہ اسی کے مطابق تیار رہے۔ لیکن یہ تو گڈ گورننس والی حکومتوں میں ہوتا ہے، جن میں سیاسی ابلاغ سے بم نہیں چلائے جاتے۔
لہٰذاپاکستان کی داخلی سیاست میں وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی گفتگو میں یوٹرن کی بے جان تشریح کے حوالے سے جو بحث شروع ہوئی ہے،اس میں یہ جائزہ لینا چاہئے کہ وزیراعظم عمران خان جہاں جہاںاور جیسے جیسے یوٹرن لے رہے ہیں، وہ کس مقصد کے لئے ہیں، اس سے ان کے انتخابی مہم میں کئے گئے اٹل ارادے تبدیل ہوگئے یا یہ ان ہی کے حصول کے لئے ہی لئے گئے۔ تنقید کرنے والوں کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اگر آج کوئی فیصلہ کیا تو کل حالات کے مطابق اگر اُسے تبدیل کرنا پڑے تو حکمت عملی تبدیل کرنا ہی تو سیاست دان کا کام اور اُسکی اہلیت کا شاخسانہ ہوتا ہے۔ اور جو لوگ حکمت عملی تبدیل نہیں کر سکتے وہ ناکام سیاستدان کہلاتے ہیں۔ اور یہی اصول ملک میں موجود سیاسی جماعتوں اور خاص طور پر اپوزیشن کے ہونے چاہییں، میدان جنگ میں وہی فوجیں کامیاب ہوتی ہیں جو حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہیں ۔جو دشمن کی چالوں کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھتی ہیں اور اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرتی ہیں وہی کامیاب ہوتی ہیں۔
اور ویسے بھی حقیقت میں یوٹرن تو شہباز شریف کا تھا، جب اس نے پچھلے الیکشن سے پہلے زرداری صاحب کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کی اور پھر پانچ سال انہی کے ساتھ مفاہمت کر کے گزار دئیے۔ تحریک انصاف نے الیکشن جیتنے کے بعد اپنے بنیادی ایجنڈے پر ابھی تک یوٹرن نہیں لیا۔ ہاں سیاست میں کچھ چیزیں حقیقت ہوتی ہیں جنہیں حقیقت پسندی ہی کہا جا تا ہے ، تحریک انصاف کے پاس ایسا بیانیہ موجود ہے، جس نے انہیں ڈیڑھ کروڑ سے زائد ووٹ دلوائے، اس بیانیہ کو مگر کس طرح سلیقے سے آگے چلانا یابیچناہے، تو انہیں ابھی سیکھنا ہوگا۔ سیکھنے کا یہ عمل خوشامدیوں کے بجائے دانائوں کی صحبت، وسیع مشاورت اور درست مشوروں کی قبولیت کا تقاضہ کرتا ہے جس کا فی الحال فقدان ہے۔
یہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ دراصل اسمبلی اپوزیشن سازش پر یقین رکھتی ہے اس لیے و ہ حکمت عملی کو نہیں سمجھ پاتی، وہ یہ سمجھتی ہے کہ کسی کی ٹانگیں کیسے کاٹنی ہیں اور وہ حکومت کی ٹانگیں پس پردہ رہ کر اور سامنے آکر اور دوسرے لوگوں کو استعمال کرکے کاٹ رہی ہے۔ اس طرح کی بیمار ذہنیت کی جو اپوزیشن ہے اُن کے خلاف حکمت عملی کا ری وزٹ ہر روز کرنا چاہیے۔ یہ اپوزیشن کو سوچنا چاہیے کہ ہم سب پاکستانی ہیں ہم سب کبھی بھی، کہیں بھی، کسی بھی جگہ سیاسی جماعت میں ہو سکتے ہیں۔ ہاں اگر اپوزیشن کی جماعتیں نظریے پر قائم ہیں تو یہ شکوہ کر سکتی ہیں کہ عمران خان کو حکمت عملی تبدیل نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کا اپنا نظریہ کوئی نہیں ہے۔ اورجب تک وہ اپنے نظریے پر قائم نہیں ہیں تب تک وہ ٹھیک نہیں ہو سکتیںاور آج عوام کو اپوزیشن کے حالات نظر آہی رہے ہیں کہ کس طرح ہمارے سابقہ دونوں ادوار کے حکمران کس طرح لوٹ مار کرتے رہے، کس طرح ہر ہر پراجیکٹ میں کرپشن کی کہانیاں سامنے آتی رہیں، کس طرح دہی بھلے، رکشہ ڈرائیور ، طلباء اور دھوبیوں کے اکائونٹس میں اربوں روپے منتقل کرکے بیرون ملک بھیجے جاتے رہے۔ عمران خان اپنی ذاتی صلاحیتوں اور شخصیت کی خوبیوںکے حوالے سے ان کا انداز ِحکومت، مشیران سے متاثرہ سیاسی ابلاغ سے کہیں زیادہ معیاری اور پرکشش ہے۔ سو، خان صاحب اپنے سیاسی ابلاغ میں اصطلاحات،تاریخی حوالوں اور الفاظ کی ادائیگی بڑی بے نیازی سے ابلاغ کے اثر پذیری کی پرواہ کئے بغیر بدستور کئے جارہے ہیں۔
میرے خیال میں عمران خان کو سمجھانا چاہیے تھا کہ سیاسی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا یوٹرن نہیں کہلاتا۔ ہر سمجھدار لیڈر اپنی پالیسیوں پر غور کرتا رہتا ہے، جب بدلتے حالات میں مناسب لگے تو رائے اور پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیا جاتا ہے۔ سیاست نام ہی لچک اور مفروضوں کا ہے، اس میں کبھی ایک قدم آگے بڑھانا تو کبھی دو قدم پیچھے ہٹانا پڑتا ہے۔ اگر ایسا کرتے ہوئے بنیادی اصولوں پر کمپرومائز نہ کیا جائے تو پھر لچکدار پالیسی اپنانا کوئی برائی یا یو ٹرن نہیں بلکہ یہ ایک خوبی ہے۔ مزے کی بات ہے کہ عمران خان نے اپنے بیس بائیس سالہ سیاسی کیرئر میں دو تین بنیادی حوالوں سے کبھی کمپرومائز نہیں کیا، یوٹرن نہیں لیا۔ وہ سیاست میں احتساب اور کرپشن کے خلاف ایجنڈا لے کر وارد ہوئے تھے۔ دو عشروں میں مختلف ناکامیوں کے باوجود عمران خان نے اپنے اس بنیادی ایجنڈے پر کمپرومائز نہیں کیا۔ وہ شروع سے آج تک لوٹی دولت واپس لانے، کرپٹ لوگوں کے احتساب اور سسٹم میں ریفارمز لانے کے ایجنڈے پر قائم ہیں۔ الیکشن جیتنے کے بعد پیپلزپارٹی کے ساتھ مفاہمت کرنا ہر لحاظ سے تحریک انصاف کے حق میں تھا۔ ہر تجزیہ کار یہی مشورہ دے رہا تھا۔ عمران خان نے اس پر سٹینڈ لیا اور مسلسل پیپلزپارٹی دور کی کرپشن کو ہدف تنقید بنائے رکھا۔
اگر وہ اصول اور حکمت کو الگ الگ رکھتے، اپنے مخالفین کی حکمت عملی کو نشانہ بناتے تو آج انہیں اس ’’مشکل ‘‘کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔مثال کے طور پر معیشت کو قرض لے کر چلانا کوئی پسندیدہ فعل نہیں ہے، لیکن اگر حالات کا تقاضہ ہو تو پھر قرض لینا کوئی جرم بھی نہیں ہے۔دُنیا کے اکثر ممالک نے قرض ہی کے ذریعے پیداواری وسائل بڑھائے ہیں۔داخلی طور پر دیکھیں تو کسی بھی مْلک کی ترقی میں اس کے بنکاری نظام کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔اگر صنعت کاروں کو قرض دینے کے لیے بینک موجود نہ ہوں تو پھر صنعتوں کا جال نہیں بچھایا جا سکتا۔ قرض داخلی اور خارجی طور پر ترقی کی کنجی ہے، ہاں اس کا استعمال غلط نہیں ہونا چاہیے۔پیداواری مقاصد کے لیے قرض لے کر غیر پیداواری مقاصد پر نہیں لگانا چاہیے۔لہٰذا حکمت عملی تبدیل کرکے اور اپنے کیے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے کے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے ورنہ اُجلت میں اور اکیلے میں کیے ہوئے فیصلے بسا اوقات نقصان پہنچاتے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024