یوٹرن کے فضائل
زیر اعظم پاکستان عمران خان نے یو ٹرن کی افادیت اہمیت اور ضرورت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔وزیر اعظم صحافیوں سے وزیر اعظم ہائوس میں بات چیت کررہے تھے۔ یاد رہے کہ اس بات چیت کا وزیر اعظم ہائوس میں ہونا بذات خود ایک یوٹرن ہے کیونکہ اس سے پہلے انتخابات کے دوران عمران خان نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ وہ وزیر اعظم ہائوس کو استعمال نہیں کریں گے اور اس محل نما عمارت کے علاوہ تمام گورنر ہائوس کو بھی مفاد عامہ کے کاموں میں لایا جائے گا۔اب لگتا ہے اس بات پر بھی یو ٹرن لے لیا گیا ہے اور تمام گورنر اور صدر وزیر اعظم وغیرہ متعلقہ عمارتوں سے بھر پور طور پر فیضیاب ہورہے ہیں۔وزیر اعظم نے یہ بھی فرمایا کہ جو لیڈر یو ٹرن نہ لے وہ کامیاب لیڈر ہو ہی نہیں سکتا۔ انہوں نے ہٹلر اور نپولین پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اگر وہ یو ٹرن لے لیتے تو بڑے نقصان سے بچ سکتے تھے۔ہمیں یقین ہے کہ فرانس اور جرمنی میں اس انکشاف پر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہوگی اور ان ملکوں کے عوام نے افسوس کیا ہوگا کہ کاش ان کے ملکوں کی قیادت اس وقت عمران خان کے پاس ہوتی تو وہ بڑے نقصان سے بچ سکتے تھے۔ہم کس قدر خوش نصیب ہیں کہ ہمارا وزیر اعظم دنیاوی لغویات جیسے جو کہو اس پر عمل کرو اور جس سے جو وعدہ کرو اسے پورا کرو وغیرہ سے پاک ہے۔ہر دل عزیز وزیر اعظم کے خیالات کے انکشاف کے بعد حزب اختلاف کا رد عمل کچھ مثبت نظر نہیں آیا۔ نہ جانے یہ حزب اختلاف والے کب سمجھیں گے کہ ملک میں تبدیلی آچکی ہے اور یہ گھسے پٹے اصول ضابطے اب کسی کام کے نہیں رہے۔ وزیر اعظم کے اعلان کے بعد صورت حال بالکل واضح ہوچکی ہے اور حکومت کا آئندہ پانچ سال کا روڈ میپ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔اس پانچ سال کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ حکومت جو بھی کہے اس پر اعتبار مت کرو۔جو وہ کہتے ہیں اس پر ضروری نہیں کہ عمل بھی کریں۔ جب جی چاہیں یو ٹرن لے سکتے ہیں اور آپ کو خود وزیر اعظم نے حکومت کے ابتدا میں ہی اس خطرے سے آگاہ کردیا تھا ویسے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس یوٹرن والے فیصلے سے بھی کسی دن یو ٹرن لے لیا جائے مگر اس کے لئے کسی نے ان کے کندھے پرہاتھ رکھ کر ان کے کان میں سرگوشی کرنی ہوگی اور اگر حالات موجودہ ڈگر پر چلتے رہے تو ہو سکتا ہے وہ ہاتھ جلد ہی ان کے کاندھے پر ہو۔ فی الحال تو قوم یو ٹرن کے مزے لوٹے۔ پچھلی حکومتیں کس قدر بورنگ تھیں جو کہتی تھیں وہ کردیتی تھیں۔ اب ہماری زندگی سسپنس میں گزرے گی۔ کیا ملک میں پچاس لاکھ گھر تعمیر کیئے جائیں گے۔ کم سے کم حکمراں جماعت کے حمایتی تو اس بات پرپکا یقین رکھتے تھے اور وہ اسی ہزار لوگ بھی جنہوں نے سنا ہے کہ خان صاحب کے وعدے پر اعتبار کرکے اس اسکیم کے لئے فارم جمع کرائے ہیں۔ اب ذرا ان کی زندگیاں بھی سسپنس کا شکار ہوجائیں گی۔ مکان بنیں گے یا نہیں یا پھر کسی دن خان صاحب کہیں گے بھول چوکس یہ مکان تو بناناذرا مشکل ہے اور ایک کامیاب سیاست داں کے طور پر میں نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے۔ چلیئے حکومت کو تو ڈھائی سو روپے فی کس کے حساب سے فیس کی مد میں ۲ کروڑ کی آمدنی ہوگئی اور لگانا ایک دھیلہ بھی نہیں پڑا۔ اسی کو کہتے ہیں کامیاب سیاست۔ ویسے پیسہ کمانے کا یہ ماڈل ملک کی عمارتی صنعت کی مختلف کمپنیوں نے بھی کامیابی سے استعمال کیا ہے اور وہ تو دیکھتے دیکھتے کھرب پتی بن گئی ہیں اور فارم خریدنے والے اب تک اپنی قسمت کو رو رہے ہیں۔یو ٹرن پالیسی کا اطلاق روزگار فراہم کرنے کے وعدے پر بھی ہوسکتا ہے۔ملک کی موجودہ معاشی صورت حال کو دیکھ کر لگتا تو نہیں کہ موجودہ ماہرین کچھ ہی دنوں میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں نئی نئی صنعتیں لگانے پر راغب کر پائیں گے اور نتیجے میںوہ لاکھوں روزگار کے مواقع پیدا ہو سکیں گے جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ویسے میرے ادنیٰ سے خیال میںاس مہم کی ناکامی کا ایک بڑا سبب خود یہ یوٹرن پالیسی بن سکتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کارایسے ملکوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں جہاں ان کا سرمایہ محفوظ ہو اور اس ملک کی حکومت ان سے کیئے گئے وعدوں کا پاس کرے۔ جہاں اس بات کاذرا سا بھی خدشہ ہو کہ ان کی سرمایہ کاری کے بعد حکومت یو ٹرن لے سکتی ہے اور قوانین میں ایسی تبدیلی لا سکتی ہے جس سے ان کی سرمایہ کاری کے ثمرات متاثر ہوں تو پھر وہ اسے دور سے سلام کرتے ہیں۔ کبھی کبھارزیادہ ہوشیاری بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔خان صاحب پہلے بھی اس بات کا مظاہرہ کر چکے ہیں کہ وہ ملکی قوانین سے نا بلد ہیں جیسے کرکٹ کنٹرول بورڈ کے سربراہ کو انہوں نے خود ہی نامزد کردیا تھا جبکہ اس کا باقاعدہ ووٹوں کے ذریعہ انتخاب ہوتا ہے۔ یہ یو ٹرن کے معاملے پر بھی انہیں اپنے وزیر قانون سے ضرور مشورہ کرنا چاہئے تھا۔ اب یہ کرکٹ کی پچ تو نہیں ہے۔جتنی بار چاہے فیصلہ بدلیں جس سے جی چاہے بائولنگ کرائیں اور جس سے جی چاہے بیٹنگ۔بڑے بڑے غیر ملکی عہدیداروں سے ملنا ہوتا ہے اور نہ صرف ان کے وعدوں پر اعتبار کرنا ہوتا ہے بلکہ جو وعدے ان کے ساتھ کیئے جائیں انہیں بھی نبھانا پڑتا ہے۔یہ بات
ضرور ہے کہ بیشتر غیر ملکی سربراہان اور دوسرے عہدیدار بھی حالات دیکھ کر فیصلے کرتے ہیں ۔ اگر ایسا کوئی کرے گا جو ہم کررہے ہیں تو کون ہم سے کوئی معاہدہ کرے گا یا ہماری بات پر اعتبار کرے گا۔شاید کیونکہ موجودہ وزیر اعظم اور ان کے قریبی مشیر اس سے پہلے حکومت میں نہیں تھے تو انہیں اس بات کا اندازہ نہیں کہ کسی بھی ملک کے وزیر اعظم کی زبان سے نکلا ہر جملہ پوری دنیا کے لئے کس قدر اہم ہوتا ہے اور اسے کس قدر سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔اسی لئے ہر ملک کا سربراہ ناپ تول کر بولتا ہے اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیئے۔ایک خیال جو بار بار میرے ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا یہ حکومت کسی انتہائی اہم اور حساس معاملے پر یو ٹرن لینے والی ہے اور اس کے لئے ماحول تیار کیا جا رہا ہے۔ابھی پچھلے ہی دنوں میںلگاتار اس قسم کی تقریریں حکمراں جماعت کے لوگوں نے کی ہیں جن میںاس بات کی طرف اشارہ دیا گیا ہے کہ ہم اسرائیل کے بارے میں یوٹرن لے لیں اور اگر اسے تسلیم نہیں کرتے توکم سے کم غیرسرکاری تعلقات ہی قائم کرلیں۔ یہ واقعی ایسا یو ٹرن ہوگا جس کا رد عمل موجودہ حکومت کے لئے سنبھالنا مشکل ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ کئی مسلم ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے اور اس سے سفارتی تعلقات قائم کرلئے ہیں ۔۔ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارا فلسطینیوں سے ایک تاریخی رشتہ ہے۔ ۱۹۴۰ میں قرارداد پاکستان میں فلسطین کا بھی ذکر ہے اور گویا ہم سالہاسال سے ایک رشتے میں جڑے ہیں۔ اسی نسبت سے یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ جب پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان ۱۹۵۰ میں امریکہ کے دورے پر گئے تو وہاں بڑے بڑے صنعت کاروں نے ان سے کہا کہ ہم نوازئیدہ پاکستان میں ہر طرح کی سرمایہ کاری کریں گے اگر آپ اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ جذبات سے بھرائی ہوئی آواز میں شہید لیاقت علی خان کا جواب تھا ـ حضرات ہمارا ضمیر فروخت کے لئے نہیں ہے۔ اب بھی ایک خان ہی کی حکومت ہے دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ لیاقت علی خان کے الفاظ کا بھرم رکھتے ہیں یا اس پر بھی ان کی یوٹرن پالیسی غالب آجاتی ہے۔