تجاوزات کے خلاف بھرپور مہم
تجاوزات کے خلاف پورے ملک میں زبردست مہم جاری ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اس پر عمل کیا جارہا ہے۔ کراچی میں ایمپریس مارکیٹ جو کہ شہر کی شناخت سمجھی جاتی ہے۔ اس کے ارگرد قائم تجاوزات کو گرا دیا گیا ہے اور اس وقت علاقے کی صفائی کی مہم جاری ہے۔اس عمل سے پہلے یہ نظر نہیں آتا تھا کہ ایمپریس مارکیٹ کہاں ہے اور اس کے ارد گرد لوگ کیسے چلیں پھریں گے۔ٹریفک کا نظام بالکل تباہ تھا۔اب جو تصویریں سامنے آرہی ہیں اس نے اس تمام علاقے کو ایک بالکل نیا منظرنامہ دے دیا ہے۔جو خوبصورت بھی ہے دل آویز بھی اور لوگوں کے لیئے سہولت کا باعث بھی۔ملک بھر میں ناجائز تجاوزات ایک منظم کاروبار بن چکا ہے اور اس کا چلانے والا مافیا اس قدر طاقت ور ہے کہ اسے نہ تو کوئی قانون ہٹا سکا اور نہ ہی کوئی قانون نافذ کرنے والا ادارہ۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ ان تجاوزات کی سرپرستی مجرموں اور حکومتی اداروں کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ یہ کوئی ایک شہر کا قصہ نہیں سارا ملک ہی اس ناسور کی لپیٹ میں ہے۔ طاقت اور پیسے کے بل پہ جس کا دل چاہا اس نے کسی بھی زمین پر قبضہ کرلیا اور اسے اپنی جاگیر سمجھ کر جس طرح چاہا استعمال کیا لیکن اس میں سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ناجائز قبضوں اور تجاوزات کی سب بڑی تعداد حکومتی زمین پر ملے گی اور اس کا کوئی ادارہ بھی نہیں بچا۔ ریلوے کے پورے پورے ٹریکس کے اوپر کراچی میں لوگوں نے کالونیاں بسا لی ہیں۔صوبائی اور وفاقی حکومتیں ان کے سامنے ایک بے بسی کا تماشہ بنی ہوئی ہیں۔سڑکوں پر فٹ پاتھ لوگوں کے چلنے کیلئے بنائے گئے ہیں یا پھر دکانیں یا ٹھیلے کھڑے کرنے کے لیئے بنائے گئے ہیں ایک عام آدمی اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔ کراچی میں شاید ہی کوئی فٹ پاتھ نظر آتا ہو جہاں لوگ پیدل چل سکتے ہوں۔ اس میں مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ تجاوزات کوئی دور دراز علاقوں میں قائم نہیں کی گئیں بلکہ شہر کے مصروف ترین بازاروں میں نظر آتی ہیں۔ یہ کوئی ایک دن کی بات نہیں بلکہ گزشتہ 50 سالوں سے یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ ان پر قابض افراد اسے اپنا حق سمجھ بیٹھے ہیں جبکہ بچارا عام آدمی یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ شاید یہ سب کچھ جائز ہے کیونکہ وہیں پر پولیس کھڑی ہوکر یہ سارا تماشہ دیکھ رہی ہوتی ہے۔اس کے علاوہ تمام رہائشی علاقوں میں بھی یہی صورت حال جاری ہے۔ بڑے بڑے پلاٹوں پر شادی حال قائم کرلیئے گئے ہیں ، پلازے بنالیئے گئے ہیں اور ان سب کی ملکیت ثابت کرنے کے لیئے کاغذات پیش کیئے جاتے ہیں جو سب جانتے ہیں کہ یہ جعلی ہیں۔ مختلف ہمدردیوں کے نام پر یہاں اسٹے آرڈر لے لیئے جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو جنہوں نے قانونی طور پر رہائش اختیار کی ہے وہ تو فریادی بنے ہوئے ہیں جبکہ قابضین مالک و مختار دکھائی دیتے ہیں۔ ان کو طاقتور مافیا کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس لیئے وہ دھونس اور طاقت سے دندناتے پھرتے ہیں۔ کسی کی ہمت نہیں پڑتی کہ وہ ایسے طاقت ور مافیاکے خلاف انگلی بھی اٹھائے۔ سپریم کورٹ اور عدلیہ کو داد دینی پڑتی ہے جنہوں نے یہ انتہائی جرت مند اقدام اٹھایا ہے جو کوئی بھی حکومت گزرے برسوں میں نہیں کر سکی لیکن اس میں عدلیہ اور حکومت کا تعاون بہت زیادہ ضرری ہے۔ کیونکہ گزشتہ ایسی ہی مہم میں دیکھا گیا کہ جوش میں آکر کارروائی تو کردی جاتی ہے لیکن معاملہ ٹھنڈا پڑنے کے بعد یہ عناصر پھر سے سر گرم ہوجاتے ہیں۔ گویا وہ قانون کو یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ" ہمارے خلاف کچھ کر کے تو دیکھو "۔ آج کرپشن اور اس کے زمرے میں آنے والے تمام معاملات کے خلاف مہم بھی چل رہی ہے اور جوش و خروش بھی پایا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کو لوگوں نے ووٹ بھی اسی لیئے دیا کہ وہ لوگوں کو ہر قسم کی کرپشن سے نجات دلادیں۔ تجاوزات کا قیام کوئی معمولی کرپشن نہیں اس میں اربوں ،کھربوں کا لین دین ہورہا ہے۔ ذرا تصور کیجیئے جو سیکڑوں دکانیں 50 سال سے زیادہ عرصے سے ایمپریس مارکیٹ میں ناجائز قائم تھیں انہوں نے کسی قدر منافع کمایا ہوگا۔ ہوشربا قسم کی داستانیں چھوٹی چھوٹی دکانوں سے متعلق سنائی جاتی ہیں کہ کیسے ان کے مالک کروڑ پتی بن چکے ہیں۔ اب کسی بھی صورت اس کہانی کو دہرانے کی اجازت نہیں دینی چاہیئے۔ شہر کے شہر تجاوزات کا جنگل بن چکے ہیں۔ اس کے اثرات ٹریفک ،ماحول ، صفائی ،صحت اور سماجی معاملات پر کس قدر گھمبیر رہے ہیں اس نے سارے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سب سے بڑھ کر اس میں عام آدمی کی بے بسی اور حکومتوں کی مسلسل نااہلی اور ناکامی سب سے زیادہ نمایاں رہی۔لوگ حکومتوں کی طرف دیکھتے رہے کہ وہ شاید کچھ کریں لیکن جو کچھ حکومتی اہلکاروں نے کیا اس کے نتیجے میں ان تجاوزات میں اضافہ مسلسل ہوتا رہا۔ دیکھا جائے تو یہ ملک کی سب سے بڑی انڈسڑی بن چکی ہے۔جس پر نہ تو کوئی ٹیکس ہے نہ کوئی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ، طاقت اور رشوت کے ذریعے معاملات طے کرلیئے جاتے ہیں۔اب حکومتی اداروں کیلئے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ اور اعلی عدلیہ کے فیصلوں کا انتظار کرنے کے بجائے اس سلسلے میں اپنی ذمے داریوں کو پورا کریں۔ اس کی اصل ذمہ داری حکومتوں اور اسمبلیوں پر عائد ہوتی ہے۔ عوامی نمائندوں کو اپنی تمام تر توجہ لوگوں کی فلاح اور بہبود پر رکھنا چاہیئے۔وہ اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ شہروں میں مسائل پیدا نہ ہوں ، شہر صاف سترا رہیں اور اس کا تمام نظام جس میں پانی ، ٹریفک ، صحت و صفائی سب ہی شامل ہیں بغیر کسی رکاوٹ کے چلتے رہیں۔