آر پی او طارق عباس قریشی نے ضلع بھر سے پی ٹی آئی کے تمام ٹکٹ ہولڈر اکٹھے کئے ۔ سرکار دربار میں بلوائے جانے کی کچھ اپنی شان ہوتی ہے ۔ ضلع گوجرانوالہ سے پی ٹی آئی کا کوئی امیدوار جیت نہ سکا تھا۔ اس شکست میں بہت سوں کے صرف ذاتی کمال کا عمل دخل تھا۔ لیکن بہت سے حلقوں میں ناکامی خالصتاً پی ٹی آئی سنٹرل پنجاب کے صدر کے’’ حسن انتخاب ‘‘کا نتیجہ بھی تھی ۔ اس سلسلہ میں نوشہرہ ورکاں میں ن لیگی امیدوار کی کامیابی کا ’’ کریڈٹ ‘‘ انہیں نہ دینا حقائق سے روگردانی ہوگی۔ کچھ ایسا دکھائی دے رہا تھاجیسے جان بوجھ کر ٹکٹوں کے غلط فیصلے کئے جا رہے ہوں۔ سابق ضلعی صدر رانا نعیم الرحمان خاں اس اجلاس میں مدعو تھے ۔ یہ ٹکٹ ہولڈر تو نہیں تھے لیکن شہر میں پی ٹی آئی کا چہرہ مہرہ یہی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے حلقہ کا ٹکٹ جماعت نے ایک نئے شامل ہونے والے الیکٹ ایبل کو دے دیا تھا۔ یہ الیکٹ ایبل ضلع کے ان چند اہم خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے جنہیں پی ٹی آئی کے دو دو انتخابی ٹکٹوں سے نواز ا گیا تھا۔ ان تمام اہم گھرانوں کی ناکامی پر پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکن ایک الجھن میں مبتلا دکھائی دیئے ۔ انہیں کچھ نہیں سوجھ رہا تھاکہ آیا ان کی شکست پر خوشیاں منائیں یا اپنی جماعتی شکست پر ماتم کریں۔ اس دکھ کا اندازہ بھی مشکل ہے کہ خوشی کے مارے دل میں لڈو پھوٹ رہے ہوں اور بندہ اپنی خوشی چھپانے پر بھی مجبور ہو۔ ’’لڈو ونڈدی گلی دے وچوں نکلاں ‘‘ کے منظر نامے کا کچھ اپنا ہی ’’سواد ‘‘ ہے ۔ اس مرحلے پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ روئے سخن خالد عزیز لون اور چوہدری محمد علی کی طرف ہر گز نہیں۔ پی ٹی آئی کی دردناک شکست اور ن لیگی کلین سویپ نے کم از کم چوہدری حامد ناصر چٹھہ کو یہ ضرور باور کروا دیا ہے کہ وہ اتنے بڑے سیاستدان نہیں جتنے بڑے بنے پھرتے ہیں۔ منتخب ممبران اسمبلی کی بجائے ان شکست خوردہ ٹکٹ ہولڈران کو بلوایاجانا کچھ اتنا غیر متوقع بھی نہیں تھا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب ان ٹکٹ ہولڈروں کو اپنے ممبران اسمبلی سمجھے جانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ بہر حال یہ خبر بھی اہم ہے کہ اس اجلاس میں ہمارے سدا بہار سیاستدان رانا نذیر احمد خاں نہ پہنچ پائے ۔ وہ ابھی تک اس حیرت سے باہر نہیں نکل پائے کہ آخر میرے ساتھ ہوا کیا ہے ؟ اک زمانہ میں وہ میاں نواز شریف کے پنج پیاروں میں شامل ہوا کرتے تھے ۔ اب نہ ہی نواز شریف رہے اور نہ ہی ان کے پنج پیارے ۔ ان دنوں گوجرانوالہ میں’’ دو پیارے ‘‘خبروں میں اِن ہیں۔ اگر آپ روزانہ اخبار پڑھنے کے عادی ہیں تو ہر روز ان دو پیاروں میں سے ایک پیارے ایس ۔اے ۔حمید کا بیان پڑھنے پر مجبور ہیں۔ ان کے اخباری بیان کے بغیر کوئی اخبار شائع ہی نہیں ہو سکتا۔گنیز بک آف ورلڈ ریکار ڈ والوں کو ادھر متوجہ ہونا چاہئے۔ اس اجلاس میں وہ آر پی او طارق عباس قریشی سے مطالبہ کرنے لگے کہ ہمارے ضلع کے تیس تھانوں کے لئے کہیں سے بھی تیس ایماندار انسپکٹر ڈھونڈ لائیے۔ ہم قریشی صاحب سے ملے تو نہیں لیکن وہ بندے بڑے مزے کے لگتے ہیں۔ وہ ایس ۔اے ۔حمید سمیت سبھی حاضرین کو ایک ایک نظر میں ٹٹولتے ہوئے بولے ’’ہمارے پولیس کے محکمہ میں ایمانداری کا تناسب معاشرے کے دوسرے طبقوں سے کچھ بہتر نہیں ۔ سو تیس ایماندار انسپکٹر وں کی دستیابی کسی طرح بھی ممکن نہیں‘‘ ۔ اب ان کا یہ کہنا غیر ضروری تھا کہ عوام کو ایسے ویسے پولیس انسپکٹروں سے ہی گزارہ کرلینا چاہئے ۔ کرپشن کی بھی خوب رہی ۔ اب یہ ہمارے معاشرے میں سرے سے برائی ہی نہیں سمجھی جارہی البتہ کسی کرپشن کی حکومت کو نشاندہی کرنے والا بلیک میلر ضرور سمجھا جاتا ہے ۔ کالم نگار کو یاد آیا کہ ایک اتوار کی صبح کالم نگار کا ضلع کچہری گوجرانوالہ سے گزر ہوا۔کمشنر عبدالجبار شاہین کی سرکاری گاڑی بیچ چوراہے کھڑی تھی ۔ وہ کچہری چوک کی پھولوں کی کیاری کے ساتھ بیٹھے دکھائی دیئے ۔ کالم نگار ان کے قریب پہنچا۔ انہوں نے کالم نگار کی جانب اپنا بایاں ہاتھ بڑھاتے ہوئے اطلاع دی ۔ ’’میرا دایاں ہاتھ گندا ہے ‘‘۔ ان کا ایک ہاتھ مٹی سے لتھڑا ہوا تھا۔ کالم نگار نے مودبانہ عرض کی ۔ ’’یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ ایک بیورو کریٹ کا صرف ایک ہاتھ گندا ہے ورنہ سچی بات ہے کہ ہم سب اپنے دونوں گندے ہاتھوں کے ساتھ جی رہے ہیں‘‘۔ ضلع گوجرانوالہ کے بیس ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی میں سے صرف دو کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ایماندار واقع ہوئے ہیں۔ان کی اپنے حلقہ میں ٹھیکیداروں سے کمیشن نہ لینے کی شہرت عام ہے۔ ایک ممبرقومی اسمبلی گوجرانوالہ سے ہیں اور دوسرے وزیر آباد سے ۔ان کے نام لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ سبھی لوگ ان کے نام جانتے ہیں۔ اب کرپشن کے ایسے’’ موسم بہار‘‘ میں آر پی او کہاں سے تیس ایماندار انسپکٹر ڈھونڈتے پھریں گے ۔ ان دنوں ایسی خوشگوار خبریں صرف دساور سے آتی ہیں۔ امریکن کانگریس کی منتخب ہونے والی سب سے کم عمر خاتون رکن الیگزنیڈریا کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ ان کے پاس واشنگٹن میں فلیٹ خریدنے کیلئے نہیں ، کرایہ پر لینے کیلئے بھی پیسے موجود نہیں۔ اس کے لئے اسے اپنی پہلی تنخواہ کا انتظار ہے ۔ خیر ہمارے فخر کی ساری چیزیں ہمارے ماضی میں پائی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ملک معراج خالد ہوا کرتے تھے ، ممبر قومی اسمبلی ۔ کرایے کے فلیٹ میں رہتے تھے ۔ ان کی اہلیہ اسکول ٹیچر تھیں۔اب یہ پرانی باتیں ہیں ۔ طارق عباس قریشی کو زیادہ سر کھپانے کی ضرورت نہیں۔ جیسے ویسے پولیس انسپکٹر ہیں ، ان کے ساتھ گزارہ کریں ۔ شیخ صاحب کو چھوڑیں ، ہم بھی ’’ایسے ویسوں‘‘ کے ساتھ گزارہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024