پاکستان میں منفرد اور محبوب اسلوب میں لکھنے والی خواتین بشریٰ رحمان اور سعدیہ قریشی کو پڑھ کر میں کسی دوسری دنیا میں چلا گیا۔اس دنیا سے کہیں نکل جانا بھی ایک نعمت کی طرح ہے۔ بشریٰ رحمان اپنی کسی کتاب کی تقریب میں بھارت یعنی دہلی گئی تھی۔ وہاں گوپی چند نارنگ کی صدارت میں اُس نے کہا کہ میں محبت کی زبان میں لکھتی ہوں اور محبت کی زبان میں صرف عورت لکھ سکتی ہے۔ ہمارے صوفیا کرام شاعروں نے بھی لکھا تو مونث کے صیغے میں عورت کی زبان میں عشقیہ شاعری کی۔ بشریٰ کی تقریر کے دوران مسلمان عورتیں روتی رہیں۔ نوجوان بھی روتے رہے۔ تقریب کے بعد عورتیں بشریٰ بی بی کے ساتھ لپٹ گئیں اور دھاڑیں مار مار کر روتی رہیں۔ بشریٰ بی بی نے دہلی والوں کا دل لوٹ لیا۔
سعدیہ قریشی نے اپنے پڑھنے والوں کیساتھ مل کر دریافت کرنے کی کوشش کی کہ ’’کامیابی کیا ہے‘‘ مجھے اپنی ناکامیاں یاد آ گئیں۔ میں اُداس ہو گیا۔ مجھے رونا اور اداس ہونا اچھا لگتا ہے۔ میں نے سعدیہ بی بی کو ایک حدیث رسولؐ سنائی۔ حضورؐ نے فرمایا کہ اگر آج کا دن تمہارے گزرے ہوئے کل کے دن سے مختلف نہیں ہے تو تم یہ جانو کہ یہ دن تمہاری زندگی میں آیا ہی نہیں ہے۔
بھارت سے ایک معروف اور زبردست خاتون شبانہ اعظمی اپنے شوہر معروف شاعر جاوید اختر کے ساتھ پاکستان آئی۔ بہت پہلے ہم نے بھارت سے صرف دلیپ کمار کا نام سُنا ہوا تھا۔ امیتابھ بچن کو بھی جانتے تھے۔ اس کے ساتھ ہم نے کیفی اعظمی کا نام سُنا تھا اور شبانہ اعظمی کا بھی بہت ذکر تھا۔ ایک پیاری اداکارہ کے طور پر اس کے لئے باتیں ہوتی تھیں۔ اس کا مطلب یہ نہیںکہ وہ مجھ سے عمر میں بڑی ہیں۔ شاید میں بہت بڑا ہوں گا مگر جاوید اختر کے سفید بال دیکھ کر حوصلہ ہوا کہ ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔
شبانہ اعظمی کا یہ جملہ بہت بامعنی اور معنی خیز ہے کہ میں نے والد کو دوبارہ اپنے خاوند جاوید اختر کی صورت میں دریافت کیا۔ یہ بات کوئی بہادر خاتون ہی کر سکتی ہے۔ یہ جملہ بھی دل کو بہت لگا کہ کیفی کی کل پونجی 18 قلم تھے۔ مجھے خیال آیا کہ میرے پاس بھی بہت سی پنسلیں (بال پوائنٹ) ہوتے ہیں جنہیں اٹھا کے میری پوتی (نقیہ) اور پوتا (مصطفی) لے جاتے ہیں اور میں ڈھونڈتا رہ جاتا ہوں۔ میری پنسلیں گم ہو جائیں تو لگتا ہے کہ میں خود گم ہو گیا ہوں۔ مگرمجھے توکوئی ڈھونڈتا ہی نہیں۔ میں خود بھی خود کونجانے کب سے ڈھونڈ رہا ہوں۔
اب بہت بڑے شاعر فیض احمد فیض کی بیٹی کی سُنیئے ۔ میں اکثر فیض صاحب کوملنے جاتا تھا۔ وہاں اُن کوکئی بار دیکھا۔ وہ ایک ماڈرن خاتون کی طرح تھی۔ آج بھی ایک ماڈرن خاتون کی طرح ہے۔ مگر فیض میلہ دونوں بہنوں نے خوب سجایا۔ میلہ تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہاں اکثر لوگ بغیر بلائے آ گئے۔ اس کا کریڈٹ فیض اور ان کی دونوں بیٹیوں کو جاتا ہے۔ یہاں عام ادبی تقریبات سے مختلف منظرنامہ ہوتا ہے۔ خاص محفلوں میں داخلہ بھی ٹکٹ کے ذریعے ہوا فیض میلہ کہتے ہوئے شرمندگی سی محسوس ہوتی ہے۔
میں سلیمہ بی بی کی بات بھول ہی گیا تھا۔ اُس نے کہا کہ فیض کو ٹیسٹ کرکٹ میں زبردست سنچری بنانے کا شوق تھا اور کوئی خاص فلم بنانے کا بھی شوق تھا۔ یہ دونوں باتیں غیر ارادی ہیں۔ شبانہ اور ان کے شوہر جاوید اختر نے اپنی گفتگو سے حاضرین کے دل موہ لئے۔ شبانہ نے بتایا کہ کیفی صاحب کو یقین تھا کہ جس بھی تبدیلی کے لئے کوشش کریں بھرپور کوشش کریں لیکن اتنی گنجائش چھوڑ دیں کہ شاید وہ تبدیلی آپ کی اپنی زندگی میں نہ آ پائے۔
والد کو ہمیشہ کُرتے شلوارمیں دیکھا۔ بڑی تکلیف ہوئی ۔ شبانہ کی اس بات سے مجھے تکلیف ہوئی۔ مگر پھر خوشی ہوئی۔ جب اس نے شاعر کی بیٹی شاعر کی بیوی اور شاعر کی بہو ہونے پر خوشی کا اظہار کیا ا ور کہا کہ سات سال بعد لاہور آئی ہوں۔ اگلے سال پھر آئوں گی۔ اس پر دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔ میں نے بھی تالیاں بجائیں۔ جاوید اختر نے کہا کہ سچ کہنے پر جیل جانا پڑتا ہے تو میں حیران ہوا ۔ منیزہ ہاشمی نے بھی یہ بات کہی کہ سچ بولنا اچھی بات ہے پھر اس کے لئے جیل کیوںجانا پڑتا ہے۔ فیض نے اکثر یہ کہا کہ مجھے عورتوں کی محبت نے بگاڑا ہے۔ ایک عوامی شاعر کو خاص طور پر امیر کبیر لوگوں کا شاعر بنانے کی کوشش کی گئی۔
پیلاک کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر صغرا صدف نے پنجابی زبان وادب کے حوالے سے ایک تقریب فیض میلہ میں کر دی۔ جبکہ پنجابی میں فیض نے نہیں لکھا تھا۔ چند چیزیں انہوں نے لکھی ہونگی۔ میری گزارش صغرا صدف سے ہے کہ وہ پیلاک میں ایک بنے بنائے ماحول کو مزید نکھارنے کی کوشش کرے اس طرح کے پہلے سے استوار کئے گئے ماحول میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش نہ کرے۔
پیلاک میں بھی زیادہ تر پروگرام اردو میں ہوتے ہیں اور یہ اچھی بات ہے مگر چودھری پرویزالٰہی نے یہ ادارہ پنجابی زبان و ادب کے فروغ کیلئے قائم کیا تھا۔ پیلاک میں تقریبات بھرپور انداز میں ہوتی ہیں۔
پنجابی کے حوالے سے اچھی تقریبات کرانے کا ہنر مدثر اقبال بٹ کو آتاہے۔ میں ان تقریبات میں جاتا ہوں مگر ہر بار مدثر میری صدارت کا اعلان کر دیتا ہے۔ ابھی کل ہی ایک یادگار تقریب صابر ناز کے پنجابی شعری مجموعے ’’تانا پگ دا‘‘ کیلئے ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی جس کی صدارت خالد عباس ڈار نے کی۔ وہ بنیادی طورپر ایک منفرد اور محبوب اداکار ہے مگر اسے کئی ادبی تقریبات میں بھی دیکھا جاتا ہے۔
میری طبیعت اچھی نہ تھی۔ میں چند لمحوں کیلئے تقریب میں گیا۔ کتاب کے سرورق پر صابر ناز کا ایک بہت خوبصورت شعر بھی موجود ہے؎
نظراں رکھ کے پگ دے اُتے
میں نچاواں اگ دے اُتے
میں نے کہا کہ جو دل والا عشق کے قبیلے کا آدمی اور شاعر آگ پر ناچتا ہے تو آگ پھول بن جاتی ہے۔ پروفیسر عاشق راحیل نے بہت خوبصورتی سے اپنے ابتدائی الفاظ میں صابر ناز کے اسلوب شاعری کو بہت سراہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’صابر سوچاں‘‘ پڑھ کے تسیں ضرور سوچیں پے جائو گے؎
دھرتی اُتے چھڈے ہوئے آں
راہواں دے وچ گڈے ہوئے آں
دوزخ دے وچ جا نہیں لبھنی
جنت وچوں کڈھے ہوئے آں
عشقا تیرے وہیڑے دے وچ
کھیڈ کھیڈ کے وڈے ہوئے آں
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024