لیفٹیننٹ طیب سے لیفٹیننٹ ارسلان تک
لیفٹیننٹ ارسلان عالم شہید کی شہادت جہاں ہم سب کے لئے بحیثیت پاکستانی فخر و انسباط کا مقام ہے وہیں اس نوخیز خوبصورت نوجوان افسر کی بے وقت رخصت پر قوم بجا طورپر دل گرفتہ ہے۔
پاکستان آرمی میں 32 سالہ کمیشنڈ سروس کے دوران مجھے بھی اپنے بیشتر ساتھیوں کی طرح پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں دہشت گردوں کے خلاف تقریباً دو عشروں پر محیط جنگ کا حصہ بننے اور عزم و یقین سے آراستہ لازوال قربانیوں کے ان گنت ناقابل فراموش واقعات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔اکتوبر 2001ء میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پانے کے بعد کسی یونٹ کی کمان خالی نہ ہونے کی وجہ سے مجھے عارضی طورپر اے ایس سی سکول تعینات کر دیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان دو اطراف سے روایتی و غیر روایتی جنگ کے مبہب سایوں میں گھر چکا تھا۔ مشرق میں ہمارا روایتی دشمن‘ جنگی سازو سامان کی برتری کے زعم میں مبتلا‘ حیلوں بہانوں سے مسلسل ہم پر دباؤ بڑھا رہا تھا جبکہ دوسری طرف مغرب میں دہشت و وحشت کا آسیب پر پھیلائے ابھر رہا تھا۔ افغانستان میں امریکی بمباری عروج پر تھی اور طالبان کی حکومت تہہ و بالا ہو چکی تھی۔2002ء کے وسط میں پارلیمنٹ پر دہشت گردوں کے حملے کی آڑ میں ہندوستان نے اپنی فوج کا ایک بڑا حصہ پاکستان کے ساتھ سرحدوں پرتعینات کر دیا۔ بحیثیت ایک پاکستانی‘ مشرقی سرحد پر منڈلانے والے خطرات کے بارے میں ہم میں سے کسی کے ذہن میں کسی قسم کا کوئی شائبہ یا ابہام نہیں تھا۔ مغرب کی طرف صورت حال تاہم مختلف تھی۔ دوست اور دشمن کی پہچان میں بے یقینی کی کیفیت کو مخصوص عناصر اپنے منفی پراپیگنڈا سے مزید دھندلا رہے تھے وطن اور اسلام کے نام پر مرمٹنے والی سادہ لوح قوم کے اخلاص سے گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔
اکتوبر 2002ء میں‘ میں نے یونٹ کی کمان سنبھالی تو ہم مشرقی سرحد پر تعینات تھے۔ مارچ کے اوائل میں صدر پاکستان نے اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے کی اجازت نہ دینے سے انکار کا بالاصراحت اعلان کیا۔ جسے اقوام عالم میں فوری پذیرائی ملی۔ ہندوستان کے لئے اب پاکستان پر مزید دباؤ بڑھانا ممکن نہ رہا تھا۔ تاہم بھاری بھر کم جنگی مشقیں جسے وہ مہینوں کی مشقت سے پاکستان کی سرحد پر کھینچ کھانچ کر لایا تھا اس کی یکسر واپسی کا اعلان ہندوستانی قیادت کے لئے فوری ممکن نہ تھا۔ آخر اپنے سادہ لوح عوام کے کروڑوں روپے کے اخراجات اور مہینوں پر محیط مہم جوئی کا مناسب جواز پیش کرنا آسان نہ تھا۔نومبر 2002ء کے اوائل میں بالآخر دونوں ملکوں نے اپنی اپنی افواج کی چھاؤنیوں میں واپسی کا دوطرفہ فیصلہ کیا اور یوں میری یونٹ جس کی کمان سنبھالے مجھے محض دو ماہ کا عرصہ ہوا تھا زمانہ امن کے مقام کوہاٹ پہنچ گئی۔ کوہاٹ واپسی پر ایک عام تاثر تھا کہ جنگ کے بادل جھٹ چکے ہیں۔ ہماری مشرقی سرحد پر تعیناتی کے دوران افغانستان میں امریکی حملے کے بعد طالبان کی حکومت تتربتر ہو چکی تھی۔ بیشتر افغان عسکریت پسند اور ان کے اتحادی پاکستان سے ملحقہ اور پاکستان کے اندر قبائلی علاقہ جات میں روپوش ہو چکے تھے۔ اگرچہ فضاء میں تناؤ تھا لیکن روپوش عسکریت پسندوں اور بالخصوص قبائلی عوام اور پاک افواج اور ایف سی میں بہرحال ٹکراؤ کی کوئی بظاہر کیفیت نہیں تھی۔ قبائلی علاقہ جات میں آمدورفت بغیر کسی روک ٹوک یا سنجیدہ حفاظتی اقدامات کے بغیر جاری و ساری تھی۔ کسی چھاپہ مار کارروائی یا بارودی سرنگوں سے حملوں کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اس ماحول میں میں معمول کے طریقہ کار کے مطابق اپنے ذمہ داری کے علاقوں بشمول کرم ایجنسی و شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے دور دراز علاقوں سے واقفیت حاصل کرنے کے سفیر پر نکل پڑا۔گو کہ قبائلی علاقہ جات میں پرتشدد واقعات کا ابھی آغاز نہیں ہوا تھا تاہم پاک فوج کی قبائلی علاقہ جات میں تاریخ میں پہلی بار تعیناتی سے دہشت گردوں اور افواج پاکستان کے درمیان ایک واضح لکیر نظر آنے لگی تھی فضاء خوف سے آلودہ اور باہمی شکوک و شبہات سے بوجھل ہو چکی تھی۔
مذکورہ بالا سفر کی روداد خود ایک دلچسپ داستان ہے جس کو فی الحال کسی اور وقت کے لئے پس پشت ڈالتے ہیں۔ تین جیپوں پر مشتمل ہمارا قافلہ کرم ایجنسی کے آغاز میں ہی واقع ٹل چھاؤنی سے گزرتے ہوئے رات گئے صدر مقام پارا چنار پہنچا۔ شب بسری کے بعد صبح صبح کوہ سفید المعروف تورا بورا پہاڑ کو عقب میں رکھ کر ہم نے چند تصاویر بنائیں اور شمالی وزیرستان کے لئے روانہ ہوئے۔ میران شاہ میں رات گزارنے کے بعد ہم وانا کے لئے روانہ ہوئے جس کے لئے ہم نے مرکزی شاہراہ کی بجائے میرانشاہ میر علی‘ رزمک‘ لدھا‘ مکین اور کانی گرم کا اندونی راستہ اختیار کیا۔ ویران اور گہری گھائیوں سے گزرتے ہوئے ایک بار بھی احساس نہ ہوا کہ کچھ عرصے بعد یہ علاقہ خاک و خون‘ وحشت و خوف کے اندھیرے میں اس طرح غرق ہو گا کہ ہر ذی روح جو اس کی خاک آلودہ ہوا میں سانس لے گا اپنی روح و جاں پر گہرے گاؤ لے کر نکلے گا۔اگلے چند ماہ قبائلی علاقوں میں موت کا سکوت تھا۔ جیسے ہولناک طوفان کے آنے سے پہلے کی پراسرار خاموشی۔ آزاد فضاؤں میں دشمن زہر گھول چکا تھا۔ لاوہ پک چکا تھا بس پھٹنے کو تھا۔ فی الوقت دونوں اطراف ایک دوسرے پر کھلم کھلا حملہ کرنے سے گریزاں لیکن دل رنجش سے پھٹنے کو تھے۔صدیوں سے انسان کے اندر چھپے شکاری اور اپنے دفاع کی جبلیات‘ ہوش و حواس پر غالب آتی جا رہی تھیں۔ پاکستان کا قبائلی علاقہ ایک بارود کا ڈھیر تھا۔ بس چنگاری کا منتظر۔غالباً فروری 2003ء کے دوران وانا کے اعظم بازار میں دن دھاڑے پاک فوج کے ایک جوان کو سینے میں گولی اتار کر شہید کر دیا گیا۔ پاک فوج نے زخم کھا کر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نا چھوڑا۔فروری میں ہی میری یونٹ کو حکم ملا کہ حالات میں یکسر کشیدگی بڑھنے کے پیش نظر وانا میں سپلائی پوائنٹس قائم کئے جائیں۔ میں نے اپنے نوجوان افسروں میں سے لیفٹیننٹ طیب کا انتخاب کیا۔ اتوار کے روز لیفٹیننٹ طیب نے تمام تر تیاری کے بعد مجھے گھر پر فون کیا اور روانگی کی اجازت طلب کیہ میں نے طیب سے کہا کہ اگر وہ ویک اینڈ گھر گزارنا چاہتا ہو تو کل علی الاصبح روانہ ہو جائے۔ لیفٹیننٹ طیب کا جواب آج بھی میرے کانوں میں گونجتا ہے ’’نہیں سر، میں آج ہی جانا چاہتا ہوں‘‘۔ طیب کی شادی کو محض ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوا تھا اور اسکی ایک پیاری سی چھ ماہ کی بیٹی تھی۔
طیب نے چھ سات آٹھ گھنٹوں کے سفر کے بعد رات صوبہ پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات کی سرحد پر واقع شہر ٹانک میں قیام کیا۔ اگلی صبح ایک کانوائے جس میں انجینئر کی بھاری گاڑیاں اور سست رفتار مشینری بھی شامل ہوچکی تھی کو لیکر لیفٹیننٹ طیب عازم سفر ہوا۔ رات کا کھانا کھا کر طیب نے مجھے فون کال کی جو میری اس کے ساتھ آخری گفتگو تھی۔ میں نے اس کو تاکید کی کہ وہ وانا پہنچتے ہی سب سے پہلے مجھے اطلاع کرے۔ شام کے قریب طیب کی شہادت کی اطلاع مل گئی۔ وانا سے 30میل کے فاصلے پر سروگئی کے مقام پر دہشت گردوں کے اچانک حملے میں طیب اور متعدد جوان جام شہادت نوش کرگئے۔ طیب کا جسد خاکی ہیلی کاپٹر کے ذریعے سی ایم ایچ کوہاٹ لایا گیا۔ میں پہنچا تو طیب خون آلود خاکی میں ابدی نیند سورہا تھا۔ نوجوان شہید کی گردن پر گولی کا کاری وار نمایاں تھا۔ ٹھوڑی پر سفید پٹی اور گردن اور گال کے بیچ کا حصہ خون آلود تھا۔
دہشت گردی اور بربریت کی سیاہ طویل رات کا آغاز ہوچکا تھا۔ بے چہرہ دشمن نے آنے والے مہ و سال میں اسلام کے نام پر نہ صرف اسلامی روایات بلکہ مروجہ عالمی جنگی اصولوں کی وہ دھجیاں اڑائیں کہ انسانیت کانپ کر رہ گئی۔سوشل میڈیا پر لیفٹیننٹ ارسلان عالم ستی کی تصاویر کو ہر پاکستانی کی طرح میں نے بھی فخر و ملال کے ملے جلے احساسات کے ساتھ دیکھا۔ شام گئے کسی نے تابوت میں بند نوجوان و نوخیز شہید کا چہرہ اپ لوڈ کیا تو بے اختیار مجھے لیفٹیننٹ طیب یاد آگیا۔ وہی سکون وہی معصومیت اور وہی خون آلودہ گردن، طیب کے بیٹی آج پندرہ سال کی ہے۔ ارسلان عالم 22 سال کا تھا۔ خون کا ایک خراج ہے جو پاکستان ادا کررہا ہے۔ لہو میں لپٹی عزم و استقلال کی داستان ہے۔ 31 اگست 2017ء کو فوجی وردی میں اپنا آخری دن گزارنے کے بعد جب میں جی ایچ کیو سے نکل رہا تھا تو دل و دماغ میں یادوں کا ایک طوفان برپا تھا۔ آنکھوں کے کونوں میں آنسو تھے کہ گرنے کو بے تاب تھے۔ آج 23 ستمبر کے دن جبکہ پاک فوج سے میرا تعلق محض رسمی رہ گیا ہے ارسلان کی شہادت نے گہرے گاؤ گھرچ کر رکھ دیئے ہیں۔ آنسوؤں کا ایک سہل رواں ہے۔
اب جبکہ میں وقت کے دھند لکے میں کھونے جارہا ہوں ۔ اپریل 2018ء میں میرا بیٹا پاکستان ملٹری اکیڈمی سے انشاء اﷲ پاس آؤٹ ہوکر فوج کی صفوں میں شامل ہوگا۔
لیفٹیننٹ ارسلان عالم ستی وقت شہادت ایک چھوٹی سی پوسٹ کی کمان کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ روشنیوں اور رنگوں میں بسے پاک وطن کے آباد و شاداب شہروں اور قصبوں سے میلوں دور، چھوٹی سی پوسٹ پر گرنے والا شہید کا مقدس خون ہم پر فرض ہے۔
دور افتادہ سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ یہ چھوٹی سی پوسٹ کبھی خالی نہیں ہوگی۔ سبز ہلالی پرچم لہراتا رہے گا!