وفاقی حکومت کیجانب سے مشرف کیخلاف 3؍نومبر 2007 ء کے اقدام پر آئین سے غداری کا کیس چلانے کا اعلان …… کیس کی ٹائمنگ اور اس میں 12؍ اکتوبر کا اقدام شامل نہ کرنا معنی خیز ہے
وفاقی حکومت نے سابق صدر اور سابق آرمی چیف پرویز مشرف کیخلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت غداری کا کیس چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ روز وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے وفاقی وزارت قانون کو باضابطہ مراسلہ بھجوا دیا گیا ہے جس میں جنرل مشرف کی جانب سے 3؍نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کے نفاذ اور اسکی بنیاد پر سپریم کورٹ اور ہائیکورٹوں کے ججوں کو گھر بھجوانے کے اقدام کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں باضابطہ طور پر کیس دائر کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے اس سلسلہ میں گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ جنرل (ر) مشرف کے 3؍نومبر کے اقدام سے متعلق ایف آئی اے کی کمیٹی نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے جس کی رپورٹ وزارت داخلہ کو موصول ہو گئی ہے اور اسکی بنیاد پر ہی مشرف کیخلاف آئین سے بغاوت کا سپریم کورٹ میں کیس دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انکے بقول مشرف کیخلاف انکوائری رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرکے اس کیس کی سماعت کیلئے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے تین رکنی خصوصی عدالت کی تشکیل کی استدعا کی جا رہی ہے جو مشرف کیخلاف تحقیقات کریگی۔ انہوں نے بتایا کہ اس کیس کیلئے حکومت کی جانب سے سپیشل پبلک پراسیکیوٹر کا تقرر بھی کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرف 1999ء میں ہماری حکومت کیخلاف بغاوت کرکے حکومت میں آئے تھے مگر میاں نوازشریف نے ذاتی رنجش اور تلخی کو نظرانداز کر دیا ہے جو انکی مشرف کے ساتھ تھی مگر مشرف نے آئین اور قانون کی خلاف ورزی کی‘ پاکستان کی عدلیہ کو پابند سلاسل کیا اور فاضل ججز کے بال نوچے گئے‘ اس پر وہ آئین اور قانون کے سامنے جوابدہ ہیں۔
ہمارے ملک میں ماورائے آئین اقدامات کے تحت جمہوریتوں کی بساط الٹا کر جرنیلی آمریتیں مسلط کرنے سے ہی سسٹم کیخلاف اصل خرابیاں پیدا ہوئیں اور یہ ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ مفاد پرست سیاست دان اقتدار میں اپنے حصے کی خیرات کی وصولی کیلئے جرنیلی آمریتوں کو کندھا فراہم کرتے رہے اور عدلیہ نظریہ ضرورت کا سہارا لے کر جرنیلی آمریتوں کو آئینی تحفظ دیتی رہی۔ ایوب خان اور یحییٰ خان کی جرنیلی آمریت کیخلاف آئین سے غداری کے کیس اس لئے نہ بن سکے کہ اس وقت کے نافذ شدہ 1956ء اور 1962ء کے آئین میں ایسے کسی ماورائے آئینی اقدام پر غداری کا مقدمہ دائر کرنے کی کوئی شق ہی موجود نہیں تھی تاہم 1973ء کے آئین میں دفعہ 6 کے تحت آئین توڑنے کے اقدام کو غداری کے جرم کے زمرے میں شامل کیا گیا۔ چنانچہ جب جنرل ضیاء الحق نے 1973ء کا آئین توڑ کر ملک میں تیسری جرنیلی آمریت مسلط کی تو اس کیخلاف نہ صرف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ایم آر ڈی کی جانب سے بحالی ٔ جمہوریت کی تحریک چلائی گئی بلکہ سیاسی اور قانونی حلقوں کی جانب سے ضیاء الحق کیخلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت غداری کا کیس چلانے کا تقاضا بھی کیا جاتا رہا مگر بدقسمتی سے اس وقت بھی سیاست دانوں نے اپنے مفادات اور عدلیہ نے بندوق کی طاقت کے آگے سرنڈر ہو کر نظریہ ضرورت کے تحت ضیاء الحق کی جرنیلی آمریت کو جنرل ضیاء الحق کے اس دعوے کے باوجود آئینی تحفظ فراہم کر دیا کہ آئین تو محض چند کاغذوں کا ایک ٹکڑا ہے جسے وہ جب چاہیں پھاڑ کر پھینک سکتے ہیں۔ اگر اس وقت ہی سیاست دانوں اور عدلیہ کی جانب سے آئین کی عملداری کی خاطر جرأت و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ضیاء الحق کیخلاف دفعہ 6 کی کارروائی کی گئی ہوتی تو یقیناً 12؍اکتوبر 1999ء کو جنرل مشرف کی جرنیلی آمریت کی نوبت نہ آتی مگر یہ نوبت آئی تو پھر بدقسمتی سے مفاد پرست سیاست دانوں اور عدلیہ کی جانب سے مشرف کے آئینی غداری کے اس جرم کو آئینی coverدے دیا گیا جبکہ مشرف کا یہی اقدام بعدازاں انکے 3؍نومبر 2007ء والے ماورائے آئین اقدام پر منتج ہوا جس کے تحت ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے ججوں سے پی سی او کے تحت حلف لیا گیا اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کرنیوالے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹوں کے فاضل ججوں بشمول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو فارغ کرکے انہیں گھروں میں نظربند کردیا گیا۔ اب وفاقی حکومت کی جانب سے مشرف کے 3؍نومبر 2007ء کے اقدام کیخلاف آئین کی دفعہ 6 کو بروئے کار لا کر ان کیخلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کیا گیا ہے جو تاخیر سے اٹھائے جانے کے باوجود درست اور مستحسن اقدام ہے اور اس پر قانون و آئین کی عملداری بھی یقیناً اپنا راستہ اختیار کریگی اور اس حوالے سے حکومت نے گیند عدلیہ کی کورٹ میں پھینکی ہے تاہم کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت کی جانب سے مشرف اور انکے ساتھیوں کے 12؍اکتوبر 1999ء والے ماورائے آئین اقدام کی بنیاد پر ان کیخلاف غداری کا کیس چلایا جاتا۔ اس سلسلہ میں وفاقی وزیر داخلہ کی یہ منطق ناقابل فہم ہے کہ میاں نوازشریف نے اپنی حکومت کیخلاف مشرف آمریت کے اقدام کو ذاتی انتقامی کارروائی کے تاثر سے بچنے کی خاطر نظرانداز کیا ہے۔درحقیقت مشرف اور انکی اس وقت کی باوردی ٹیم کا 12؍اکتوبر 1999ء کا ماورائے آئین اقدام ہی 3؍نومبر 2007ء کے اقدام کا باعث بنا تھا اس لئے ضروری تھا کہ سسٹم میں پیدا کی گئی خرابی کی اصل جڑ کو پکڑ کر اسے اکھاڑا جاتا۔ اس حوالے سے بعض سیاسی اور قانونی حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا 12؍اکتوبر 1999ء کے ماورائے آئین اقدام پر آئین کی دفعہ 6 کی عملداری سے اس لئے گریز کیا گیا ہے کہ اس سے موجودہ حکومت کے اپنے کئی ساتھی اور کئی سابقہ جرنیل بھی زد میں آئینگے؟ جبکہ سانحۂ راولپنڈی کی پیدا کردہ تلخی کی فضا میں مشرف کیخلاف غداری کا کیس دائر کرنے کی ٹائمنگ کا سوال بھی اٹھ رہا ہے جس کی خود مشرف نے بھی اپنے ردعمل میں نشاندہی کی ہے۔ اگر یہ تاثر درست ہے تو پھر وفاقی حکومت کی جانب سے 3؍نومبر کے اقدام کیخلاف غداری کے کیس کے اندراج کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا معاملہ بھی محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے زمرے میں آئیگا جس کے بارے میں سینئر آئینی اور قانونی ماہرین کی جانب سے پہلے ہی اس رائے کا اظہار سامنے آچکا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام محض ’’آئی واش‘‘ نظر آتا ہے اور اس کا اندازہ تو بعد میں ہی ہو گا کہ حکومت مشرف کیخلاف یہ کیس چلانے کیلئے کتنی مخلص اور سنجیدہ ہے؟