ششی تھرور کا دورئہ امریکا اور اقوامِ متحدہ

May 19, 2025

نصرت جاوید

امریکی صدر کی کہی بات چند ہی برس قبل تک تقریباً حرفِ آخر تصور ہوتی تھی۔ عراق اور افغانستان پر جنگیں مسلط کرنے کے لیے دنیا کی واحد سپرطاقت نے لیکن جو جواز گھڑے انھوں نے امریکی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور پھر آگئے ڈونلڈٹرمپ۔ موصوف کی شخصیت نے امریکی صدر کے رعب داب کو بے تحاشا جھٹکے دیے ہیں۔ یہ کہنے کے باوجود تسلیم کرنا ہوگا کہ اقتصادی ہی نہیں بلکہ فوجی اعتبار سے بھی امریکا فی الوقت دنیا کی سب سے بڑی قوت ہے اور اس کے صدر کی بات کو اہمیت دینا مجبوری ہے۔
خوش قسمتی سے پاکستان کے لیے یہ ’مجبوری‘ کام آرہی ہے۔ 10مئی 2025ء کے دن سے ٹرمپ سوشل میڈیا پر اپنے پیغامات اور عالمی ٹیلی وژن اداروں کو انٹرویودیتے ہوئے یہ بات مسلسل دہرارہے ہیں کہ پہلگام پر ہوئے دہشت گرد حملے کے جواب میں 6اور 7مئی کی درمیانی رات بھارت نے پاکستان پرجو حملہ کیا اس کا جواب آیا تو وہ اور ان کے معاونین 9مئی کی رات سو نہیں پائے۔ پاکستان اور بھارت کی سیاسی اورعسکری قیادت سے مستقل رابطے میں رہے اور بالآخر انھیں ’ایٹمی جنگ‘ کی طرف بڑھنے سے روک دیا۔
10مئی سے مستقل یہ ’اطلاع‘ دیتے ہوئے بھی ڈونلڈٹرمپ دنیا کو ’چونکا‘ نہیں پائے ہیں۔ یورپ بدستور اپنے داخلی مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ روس کی توجہ یوکرین کو تھلے لگانے پر مرکوز ہے اور غزہ اس عالم میں یک وتنہا ہوا اسرائیل کی وحشیانہ فضائی بمباری کی اذیت سے گزررہا ہے۔ بااثر عالمی میڈیا میں بھی ایسی تفصیلات فکرمندی سے اجاگر نہیں ہوئیں جو دنیا کے اہم ترین ممالک کو اعتبار دلائیں کہ پاکستان اور بھارت واقعتا رواں صدی کی پہلی ایٹمی جنگ کے دہانے تک پہنچ چکے تھے۔ مذکورہ حقیقت کو دل وجان سے تسلیم کرلینے کے بعد ہی نام نہاد عالمی ضمیر یہ جاننے کی کوشش کرسکتا ہے کہ ایٹمی جنگ کے نتیجے میں فقط جنوبی ایشیا کے دو ازلی دشمن ہی تباہ وبرباد نہیں ہوں گے۔ تابکاری کے اثرات ان کے ہمسایہ ممالک تک بھی محدود نہیں رہیں گے۔ ریزہ زیزہ ہوئے پہاڑ اور گلیشئر بالآخر سارے عالم کے لیے بارشوں اور دریائوں کے بغیر قحط سالی یقینی بنائیں گے۔
امریکی صدر کو گلہ ہے کہ اسے ممکنہ تباہی روکنے کا کماحقہ ’کریڈٹ‘ نہیں دیا جارہا۔ حالیہ انٹرویوز میں وہ یہ بات تین سے زیادہ بار دہراچکے ہیں۔ ذاتی طورپر میں ان کی خودپسندی کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہوں۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں ان کے پاس ٹھوس مواد موجود ہے جو دنیا کو اس امر پر قائل کرسکتا ہے کہ 6اور 7مئی کی درمیانی رات سے شروع ہوئی جنگی جھڑپیں پاکستان اور بھارت کو ایٹمی جنگ کی جانب دھکیل رہی تھیں۔ سیاسی اعتبار سے وہ ’ریاستی راز‘ چھپانا ’ڈیپ اسٹیٹ‘ کی عادت قرار دیتے ہیں۔ عوام کو ہر معاملے کے بارے میں ’باخبر‘ رکھنا چاہتے ہیں۔ منہ بسور کر یہ گلہ کرنے کے بجائے کہ انھیں ایٹمی جنگ رکوانے کا کماحقہ کریڈٹ نہیں دیا جارہا امریکی صدر کو یہ تمام ریکارڈ دنیا کے سامنے رکھ دینا چاہیے جس کی بدولت ہم جیسے بے خبر بھی یہ سمجھ پائیں کہ 6مئی 7مئی کی درمیانی رات بھارت کی جانب سے پاکستان پر ہوا حملہ کن ٹھوس وجوہات کی بنیاد پرایٹمی جنگ کے دہانے تک پہنچ چکا تھا۔ اس کی بدولت ٹرمپ اور ان کے معاونین کی نیندیں حرام ہوئی اور انھیں پاکستان کے اعلیٰ ترین سیاسی اور عسکری حکام سے مسلسل رابطے کے بعد اس جنگ کو رکوانا پڑا۔
تفصیلات کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نہایت مکاری سے کم از کم اپنے عوام کی اکثریت کو یہ کہانی بیچنے میں کامیاب ہورہا ہے کہ اس کی جانب سے پاکستان کے چند اہم ایئرپورٹس پر ’براہموس میزائل‘ گرائے جانے کے بعد پاکستان اپنے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن کے ذریعے جنگ بندی کی ’فریاد‘ کو مجبور ہوا۔ نئی دلی نے نہایت فراخ دلی سے مبینہ فریاد مان لی۔ امریکا نے جنگ بند کروانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے۔
پاکستان میں نفسیاتی جنگ کے تناظر میں اس اہم پہلو کی جانب توجہ نہیں دی جارہی۔ ہم غالباً اس کی ضرورت یہ سوچتے ہوئے محسوس نہیں کررہے ہوں گے کہ اگر بھارت براہموس میزائل کے استعمال کے بعد پاکستان کو جنگی اعتبار سے ’پسپا‘ کرچکا تھا تو جنگ بندی کے لیے ’بڑا دل‘ دکھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہندوتوا کا حتمی ہدف ’گائوماتا‘کے تن سے ’جدا کیے‘ پاکستان کا خاتمہ ہے۔ 10مئی کی سہ پہر اگر وہ اس کے قریب پہنچ چکا تھا تو جنگ بندی کو آمادہ کیوں ہوا؟
ہماری جانب سے ٹھوس حقائق کو واضح ڈیجیٹل ثبوتوں کے ذریعے دہراتے رہنا شدت سے درکار ہے۔ بھارت کے آدم پور اڈے سے چلائے ڈرونز اور میزائلوں کے ’سفر‘ کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک پریس کانفرنس کے دوران جس مؤثرانداز میں بیان کیا تھا اسی انداز کو پھیلاتے ہوئے سادہ ترین زبان میں 6اور 7مئی کی درمیانی رات سے شروع ہوئی جھڑپوں کے 10مئی کے روز اختتام پر مشتمل ایک جامع دستاویز درکار ہے جو مقامی ہی نہیں عالمی سطح پر بھی ہماری داستانِ مزاحمت کو مزید توانا بنائے۔
نفسیاتی جنگ کا ذکر چھیڑنے کو مجبور ہوا تو اس کی کلیدی وجہ بھارت کا رویہ ہے۔ اس کی جانب سے 6اور 7مئی کی درمیانی رات شروع کی جنگ ’رکی‘ ہے ’ختم‘ نہیں ہوئی۔ ہم سے کہیں زیادہ بڑے ملک کا رویہ جس کا بالی ووڈ کروڑوں کی لاگت سے خیالوں اور خوابوں کی الگ دنیا بنالیتا ہے نظر بظاہر جوابی بیانیے سے اتنا خائف ہے کہ عرصہ ہوا عملی صحافت سے ریٹائر ہوئے مجھ جیسے بے اثر صحافی کے ایکس اکائونٹ تک جمعہ کی صبح بھارتی صارفین کی رسائی ناممکن بنادی گئی ہے۔ مجھے اس کی اطلاع ایکس انتظامیہ نے سرکاری چٹھی کے ذریعے دی ہے۔ اس سے قبل میرے ایک مہربان کی جانب سے بنائے ’نصرت جاوید آفیشل‘ نام کے یوٹیوب چینل کو بھی بھارتی ناظرین کے لیے بند کردیا گیا تھا۔ حالانکہ اس کے لیے کوئی اوریجنل مواد تیار نہیں کرتا تھا۔ دیگر ٹی وی سکرینوں پر مختلف موضوعات پر میری گفتگو ہی اس کی بدولت مزید لوگوں تک پہنچانے کی کوشش ہوتی تھی اور میں اس کے ذریعے ایک ڈالر بھی نہیں کماتا تھا۔
ذاتی تجربے کا ذکر محض یہ اصرار کرنے کو کیا ہے کہ جنگ بندی کے باوجود ہندوستان اپنی دانست میں ’وقفے‘کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے خلاف ایک اور بھرپور جنگ مسلط کرنے کی تیاری کررہا ہے۔ ٹرمپ کی سنائی کہانی کا ’توڑ‘ غالباً تیار کرلیا گیا ہے۔ اسے دنیا کے اہم ترین ممالک کے فیصلہ سازوں تک پہنچانے کے لیے بھارتی وفود بھیجے جائیں گے۔ سب سے اہم وفد کی قیادت بی جے پی کی سیاسی دشمن کانگریس کے ایک نمائندے کے سپرد ہوئی ہے۔ ششی تھرور اس کا نام ہے۔ کیرالہ سے لوگ سبھا کے لیے منتخب ہوا ہے۔ اس کے چنائو کی اصل وجہ مگر اس کا سفارتی تجربہ ہے۔ امریکہ کے مشہور فلیچر سکول آف ڈپلومیسی سے ڈگری کے حصول کے بعد موصوف نے کئی برس اقوام متحدہ کی ملازمت میں گزارے تھے۔ ایک بار اس نے اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل منتخب ہونے کی کوشش بھی کی تھی۔ موصوف کو انگریزی زبان پر قابل رشک عبور حاصل ہے اور حالیہ پاک-بھارت جنگ کے دوران وہ کانگریس سے تعلق رکھنے کے باوجود ہندوتوا کے حامی اینکروں کے چلائے پروگراموں میں پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں بہت مصروف رہا ہے۔ پاکستان سے موصوف کی نفرت نے مجھے حیران کردیا۔ اس کی وجہ جاننا ہو تو انکل گوگل سے رجوع کرلیں اور پتا لگانے کی کوشش کریں کہ ان کی کشمیری پنڈت بیوی نے خودکشی کیوں کی تھی اور اس کی وجہ سے کس پاکستانی کو خواہ مخواہ بدنام کیا گیا تھا۔ ذاتی طورپر مجھے سکینڈل اچھالنے سے نفرت ہے۔ توجہ اس امر پر مبذول رکھنے کو ترجیح دوں گا کہ ششی تھرور دنیا کے بیشتر ممالک میں کیا ’سکرپٹ‘ تیار کرکے بیچنے جارہا ہے ۔اس کا دورئہ امریکا اور اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں ہوئی ملاقاتیں اس ضمن میں خصوصی توجہ کی مستحق ہوں گی۔

مزیدخبریں