اللہ تعالیٰ کی ذات کامل ہے اور وہ ہر عیب سے پاک ہے اور ساری کائنات کا خالق و مالک اور رازق ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے تا کہ وہ اپنے افعال ، اقوال اور اعمال و کردار سے اللہ تعالی کی رضا حاصل کر سکے ۔ رضائے الٰہی کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ خشیتِ الٰہی ہے قران و حدیث میں متعدد مقامات پر خشیتِ الٰہی کو مومن کی صفت بیان کی ہے ۔ خشیتِ الٰہی کا مطلب ہے علم و معرفت کے ساتھ خوف ۔ یہ عام خوف سے مختلف ہے عام خوف وقتی یا ظاہری اسباب سے ہوتا ہے لیکن خشیت ایک دائمی کیفیت ہے جو اللہ تعالیٰ کے جلال ، عظمت ، قدرت ، علم ، عدل اور سزا کی معرفت کے نتیجے میں دل میں پیدا ہوتی ہے ۔ یہ خوف انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے اورنیکی کی طرف راغب کرتا ہے ۔ دل سے خشیتِ الٰہی کا جانا روحانی طور پر برباد ہونے کے مترادف ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں بے شک اللہ عزت والا بخشنے والا ۔ ( سورۃ فاطر:آیت 28) اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ اہل علم ہی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور ان کا یہ خوف جہالت یا وہم پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ بصیرت، عقل اور ایمان کی روشنی پر مبنی ہوتا ہے ۔
سور ۃ آل عمران آیت 175 میں اللہ تعالی فرماتا ہے ’ اور مجھ سے ڈرو اگر تم مومن ہو‘۔ سورۃ المائدہ آیت نمبر 83 میں اللہ تعا لی ارشاد فرماتا ہے :’ اور جب سنتے ہیں وہ جو رسول کی طرف اترا تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ آنسوئوں سے ابل رہی ہیں اس لیے کہ وہ حق کو پہچان گئے کہتے ہیں اے ہمارے رب ہم ایمان لائے تو ہمیں حق کے گواہوں میں لکھ لے‘۔
جو لوگ خشیتِ الٰہی میں گڑ گڑاتے ہیں پھر ان کو اجر کیا ملتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’ اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈر ے اس کے لیے دو جنتیں ہیں ‘۔ ( سورۃ الرحمن :آیت 46)
ایک مقام پر ارشاد فرمایا :’ اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا ۔ تو بے شک جنت ہی ٹھکانا ہے ‘۔( سورۃ النازعات) حضو نبی کریمﷺ محبوبِ الٰہی ہیں لیکن اس کے باوجود آپؐ کی خشیت کا عالم یہ ہے کہ آ پؐ فرماتے ہیں :خدا کی قسم مجھے اللہ تعالی کا لوگوں کی نسبت زیادہ علم ہے اور میں خدا سے ان کی نسبت زیادہ ڈرتا ہو ں ۔( بخاری و مسلم )
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک آدمی اپنے اوپر ظلم و زیادتی کرتا رہا ، جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ جب میں مر جائوں تو مجھے جلا دینا اور جب راکھ بن جائے تو اسے ہوا میں اڑا دینا ۔ اللہ کی قسم اگر میرے اللہ نے مجھے پکڑ لیا تو وہ مجھے ایسا عذاب دے گا جو کبھی کسی کو نہ دیا ہو گا۔ اس کے مرنے کے بعد ایسا ہی کیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اس کی راکھ کو جمع کیا اور اپنے سامنے کھڑ اکیا اور پوچھاتمھیں یہ کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا تو وہ عرض کرے گا اے اللہ تیرے خوف نے اس پر اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا۔( بخاری )
خشیتِ الٰہی (۱)
May 19, 2025