پاک بھارت جنگ کے دوران افغان وزیر کا خفیہ دورۂ بھارت
اقبال نے شاید ایسے ہی مسلمانوں کے لیے کہا تھا:
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
وزیراعلیٰ بلوچستان نے یونہی نہیں کہا ہے کہ پاکستان مخالف گروپ بھارتی مال و عسکری امداد کے ساتھ افغانستان میں کیمپ چلا رہے ہیں اور وہاں سے پاکستان کے خلاف تخریبی کارروائیاں کرنے پاکستان آتے ہیں۔ جعفر ایکسپریس سانحہ کے بعد بی ایل اے کے دہشت گرد گروپ کی کمر توڑی جا چکی ہے، اب بھارت ماہرنگ بلوچ کی امداد کے لیے نئے چہرے سامنے لایا ہے۔ یہ بھی افغانستان میں کیمپ چلاتے ہیں۔ یہ تو عرصہ دراز سے ہوتا آرہا ہے مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے دنوں میں افغان وزیر نے خفیہ طور پر بھارت کا دورہ کیا، وہاں کے حکام سے ملاقاتیں کیں۔ اب یہ دورہ بھارت سے ناریل اور گنے کی خریداری کے سلسلے میں نہیں گیا ہوگا، نہ بھارت کو جنگ بندی کا کہا گیا ہوگا۔ یہ دورہ ’لگے رہو، ہم آپ کے ساتھ ہیں‘ جیسی مکروہ سیاست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کاش افغان رہنماؤں میں عقل ہوتی تو ان کا وزیر دہلی نہیں، اسلام آباد آتے اور کم از کم مسلمان ہونے کے ناطے پاکستانیوں کو اپنی بھرپور معاونت کا جھوٹے منہ ہی سہی، یقین دلاتے تو پاکستانیوں کے دل میں بھی افغان پالیسی کے حوالے سے نرمی کی خواہش جنم لیتی۔ حالات بہتر بنانے میں مدد ملتی۔ ایسا نہیں ہوا، الٹا وزیر موصوف نے افغان بھارت تعلقات کو تاریخی اور دیرینہ دوستی کا شاہکار قرار دیااور کہا:
لے کے پیار تیرا آنکھوں میں دلدار آ گیا
تھا جس کاانتظار وہ شہکار آ گیا
اب ظاہر بات ہے یہ مستحکم تعلقات صرف اور صرف پاکستان کے خلاف ہوں گے ورنہ دورہ خفیہ رکھنے کی وہ بھی جنگ کے ایام میں کیا ضرورت تھی۔ کچھ نہ کچھ تو کیا، یہاں ساری دال ہی کالی لگ رہی ہے۔ لگتا ہے 1947ء والی آگ اب تک بہت سے دلوں کو جلا رہی ہے۔
٭…٭…٭
شکست خوردہ بھارت ایک بار پھر ایڈونچر کے لیے پر تولنے لگا
بفضل خدا ہم معرکۂ خیر و شر میں کامیابی حاصل کرنے پر یومِ تشکر منا رہے ہیں۔ ملک بھر میں عوام جوش و خروش سے تقریبات میں حصہ لے رہے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے والا بھارت گویا انگاروں پر لوٹ رہا ہے۔ وہاں پاکستان سے ترنت بدلہ لینے کی بھاونا بڑھتی جا رہی ہے۔ ہندوتوا کے حامی اور شدت پسند تنظیموں کے کارکن عام سادہ لوح بھارتیوں کو بھڑکا رہے ہیں، اکسا رہے ہیں کہ مودی سرکار اور اپنی سینا پر دباؤ بڑھائیں کو وہ پاکستان سے شرمناک ہار کے بعد جو کالک سیندور کی جگہ بھارت کی مانگ میں بھری گئی ہے، کو مٹانے کی کوئی راہ نکالی جائے ورنہ ہندوتوا کے نام پر رام راج کا خواب پورا نہیں ہو پائے گا اور یہ جنونی ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی اور دلتوں کو مار مار کر ان کے وجود سے بھارت ورش کو شدھ کرکے یہاں جو خالص ہندو ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں، وہ کبھی پورا نہ ہو پائے گا۔ چنانچہ اطلاعات یہی ہیں کہ اندرون خانہ ہندوستان من مرضی کے علاقے منتخب کرکے پاکستان کے خلاف ایک بار پھر اچانک حملہ کرکے اپنے لوگوں کو خوش کرنا چاہتا ہے۔ محدود پیمانے پر ہی سہی، اب بھارت کی کوشش ہوگی کہ وہ ایک آدھ سول آبادی کو پھر بمباری کا نشانہ بنانے اور عوام کو خوش کرنے کے لیے ہم جھوٹے نعرے لگا کر جشن منانے کا انتظام کرے ورنہ عوام کا غصہ مودی حکومت اور اس کی گودی میڈیا کو بہا کر بحیرہ ہند میں غرق کر دے گا۔ اس لیے حکومت پاکستان بھی چوکنا رہے، ایسے بزدل مکار دشمن سے خیر کی توقع نہ رکھے، وہ اس وقت زخم چاٹ رہا ہے، جیسے ہی افاقہ ہوگا، پلٹ کر وار کر سکتا ہے جس کا جواب ان شاء اللہ اسے ویسا ہی ملے گا جیسے پہلے ملا ہے کیونکہ ہمارے مجاہد زندگی سے زیادہ موت کو گلے لگانے کے متمنی ہوتے ہیں۔
٭…٭…٭
غزہ کی مرنے والوں کو بچانے کے لیے جلد اقدامات کروں گا، امریکی صدر
صدر ٹرمپ کے منہ سے یہ الفاظ سن کر نجانے کیوں دکھ سا محسوس ہوتا ہے۔ کیا وہ اب تک غزہ میں ہونے والے قتل عام سے بے خبر رہے ہیں، اسرائیلی محبت کی جو پٹی انکی آنکھوں پر چڑھی ہے، کیا وہ انھیں اپنے مظالم دیکھنے نہیں دیتی۔ اس سے بہت کم قتل عام روس نے یوکرین میں کیا ہوگا جہاں جوڑ برابر کا کہہ سکتے ہیں، امریکا اور پورا یورپ روس کے مقابلے میں یوکرین کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے اور سب یوکرین کے غم میں یوں گھلے جا رہے ہیں جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔ غزہ میں نہتے شہری اسرائیل کے خطرناک اسلحہ کا مقابلہ کر رہے ہیں، جو امریکا اور یورپی اتحادی اسے فراہم کرتے ہیں اور پھر انسانی حقوق کا جھوٹا رونا بھی روتے ہیں۔ امریکی صدر کا دورۂ مشرق وسطیٰ تجارتی معاہدوں اور سیرپاٹے کی حد تک تو کامیاب رہا مگر اصل مسئلہ یعنی فلسطین ابھی تک حل طلب ہے۔ اب ٹرمپ نے کہا ہے کہ انھیں غزہ میں جاری انسانی المیہ کا دکھ ہے، وہ جلد اس کے حل کے لیے اقدامات کریں گے، خدا کرے ایسا ہی ہو ورنہ ’مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے‘ والی نوبت آسکتی ہے۔ ویسے بھی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے امریکا کو مشرق وسطیٰ میں ایک اور دوست میسر آئے گا اور اسرائیل کو روزانہ جوتیاں کھانے سے نجات ملے گی۔
٭…٭…٭
بھارت بعض اوقات اپنی حدود سے تجاوز کر جاتا ہے، امریکی دفاعی تجزیہ کار
موصوف کا اسرائیل کے بارے میں کیا خیال ہے، اس کی تو بھارت جتنی بھی اوقات نہیں۔ آدم کی گٹھلی جتنی ریاست کو امریکا نے تھپکیاں دے کر اس کی عسکری مدد کرکے اسے گیدڑ سے شیر بنا دیا، جو اپنی اوقات سے اس قدر باہر ہو چکا ہے کہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر مسلم دنیا اسرائیل پر تھوکنا شروع کر دے تو وہ اسی میں ڈوب کر مر جائے گا مگر کیا کیجیے، مسلم دنیا بھی اپنی اپنی مصلحتوں کا شکار ہے، وہ اسرائیل کی مذمت تو کرتی ہے مگر اس کے جنونی ہاتھ روکنے سے قاصر ہے۔ اسی طرح امریکی آشیرباد سے اس خطے کا گیدڑ بھارت بھی خود کو شیر سمجھ بیٹھا ہے، جو اکثر اپنی اوقات سے بڑھ کر پاکستان کے ساتھ پنگا لے بیٹھتا ہے۔ اس دفعہ تو اس نے حد ہی کردی، عسکری طاقت بالخصوص رافیل کے زعم میں اندھا ہو کر پاکستان پر چڑھ دوڑا۔ پھر پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے نہ صرف اس کی درگت بنائی بلکہ اسے اس کی اوقات بھی یاد دلا دی۔ اب وہ خاموشی سے بیٹھا اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔ ابھی بزدل اسرائیل کا پاکستان جیسے مرد سے پالا نہیں پڑا، وہ نہتے فلسطینیوں پر بمباری کرکے خود کو دنیا کا سب سے طاقتور سمجھ بیٹھا ہے۔ جس دن اس کا پالا پاکستان سے پڑ ے گا اس دن اسے اپنی نانی بھی یاد آجائے گی اور اوقات بھی پتا چل جائے گی۔
پیر‘ 21 ذیقعد 1446ھ ‘ 19 مئی 2025 ء
May 19, 2025