تاریخ گواہ ہے کہ سمندری لہریں ہمیشہ سے تہذیبوں کے ارتقاء کی امین اور محافظ رہی ہیں۔ وہ قومیں جنہوں نے بحری راستوں پر حکمرانی کا گْر سیکھ لیا، وہ دنیا کی رگوں میں پگھلے ہوئے سونے کی طرح دوڑنے لگیں۔ آج بھی یہی سمندر ترقی کے سفینے کو ساحلِ مراد تک پہنچانے کا وسیلہ ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے ساحل پر کھڑے ہو کر اس بحری دولت کے خواب دیکھ رہے ہیں یا اسے اپنی آنکھوں کے سامنے کسی اور کو لوٹتا دیکھ رہے ہیں؟ پاکستان وہ ملک ہے جس کی جغرافیائی پوزیشن دنیا کے کسی بھی خطے سے کم نہیں بلکہ کئی لحاظ سے تو یہ پوزیشن نہ صرف خطے کیلئے بلکہ پوری دنیا کیلئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہماری بندرگاہیں نہ صرف بحیرہ عرب کی گہرائیوں میں اترتی ہیں بلکہ وسط ایشیا کی خشک زمینوں تک تجارت کی زندگی بخش رگوں کو پھیلانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ مگر افسوس! ہماری عظیم الشان بندرگاہیں جو کبھی ’’امیدوں کا سمندر‘‘ کہلاتی تھیں، آج اپنے ہی بوجھ تلے دب کر رہ گئی ہیں۔
سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے پاکستانی بندگاہوں سے متعلق جو انکشاف کیا ہے، وہ کسی المیے سے کم نہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ پاکستانی بندرگاہوں کے چارجز خطے کی دیگر بندرگاہوں سے مہنگے ہیں۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے جو ہمارے حکمرانوں کے دعوؤں کا منہ چڑاتی ہے۔ گوادر، جسے ہم وسط ایشیا کا دروازہ بنانے کے خواب دیکھتے آئے ہیں، آج چاہ بہار جیسی ایرانی بندرگاہ کے سامنے بے بس کھڑی ہے۔ 2009ء میں گوادر کے ساحلوں پر 70 جہاز لنگر انداز ہوتے تھے، 2024ء میں یہ تعداد گھٹ کر صرف چار رہ گئی۔ کیا یہ کوئی معمولی گراوٹ ہے؟ نہیں، یہ تو اْس قوم کی بدقسمتی کا نوحہ ہے جو اپنے ہی خزانے کو ملیامیٹ کرنے پر تْلی ہوئی ہے۔ شپنگ چارجز کی بلندیاں، ٹیکس کے بوجھ اور ریگولیٹری بے راہ روی نے گوادر کو ایک ’’سوتیلا بچہ‘‘ بناکر رکھ دیا ہے جبکہ چاہ بہار، جو ہماری حکمت عملیوں کی نقل کیا کرتی تھی، آج کامیابی سے تجارت کے دروازے کھول رہی ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ ہماری حکومتیں وسط ایشیا کی تجارت کو گوادر سے جوڑنے کے خواب دیکھیں، مگر عملاً اْسے ٹیکس فری زون بنانے میں ناکام رہیں؟ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کے لیے کبھی کہا جاتا تھا کہ ’’اگر ہندوستان کی تاریخ سڑکوں پر لکھی گئی ہے تو پاکستان کی قسمت بندرگاہوں پر لکھی جائے گی؟‘‘ آج ہماری بندرگاہیں نہ تو تجارت کے لیے پرکشش ہیں اور نہ ہی خطے میں ہمارا اثرورسوخ بڑھانے کا ذریعہ۔ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایات، ایل این جی جہازوں کی فیس میں کمی اور ریگولیٹری باڈی کی تشکیل کے وعدے محض کاغذی پھول بن کر رہ گئے۔ کیا ہماری ترجیحات میں بندرگاہیں سب سے نیچے ہیں؟ یا پھر ہماری بیوروکریسی کی نااہلی نے اس سرمایے کو زنگ آلود کردیا ہے؟
گوادر کی مثال لیجیے۔ گوادر کی سینہ کوبی دیکھ لیجیے اور اس کے بین سن لیجیے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سمندر اور صحرا ملتے ہیں۔ یہاں سے نکلنے والا راستہ نہ صرف چین کو گلگت بلتستان سے جوڑتا ہے بلکہ اس کا دامن افغانستان اور وسط ایشیا تک پھیلا ہوا ہے۔ مگر ہم نے اسے کیسے سنبھالا؟ شپنگ چارجز میں اضافہ کرکے! گویا ہم نے وہی کیا جیسے کوئی کسان اپنے کھیتوں میں پانی کی بجائے نمک ڈال دے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ دنیا کی کامیاب بندرگاہیں ٹیکس فری زونز، کم چارجز اور آسان ضوابط کی بدولت ترقی کرتی ہیں؟ سنگاپور، دبئی اور روٹرڈیم کی کہانیاں ہمارے سامنے ہیں۔ مگر ہماری حکمت عملی یہ ہے کہ گوادر کو ایک ’’فوجی اڈہ‘‘ بنا کر رکھ دیا جائے اور تجارت کے لیے اس پر خط تنسیخ پھیر دیا جائے۔
وسط ایشیا کے ممالک ازبکستان، قازقستان اور ترکمانستان یہ سب پاکستان کو سمندر (گرم پانیوں) تک پہنچنے کیلئے اپنا واحد راستہ سمجھتے ہیں۔ مگر ہم نے اْن کے لیے راستہ کھولنے کی بجائے خود ہی پہاڑ کھڑے کردیے ہیں۔ کیا ہم نہیں چاہتے کہ یہ ممالک گوادر کے ذریعے اپنی معدنیات، تیل اور گیس دنیا کی منڈیوں تک پہنچائیں؟ ہماری بندرگاہیں اگر فعال ہوجائیں تو نہ صرف پاکستان کی معیشت میں انقلاب آجائے بلکہ خطے کی طاقت کا مرکز بھی بن جائیں۔ مگر اس کے لیے ہمیں اپنے مفادات کو وسعت دینا ہوگی۔ ہماری جغرافیائی پوزیشن ایک ’’فطری تحفہ‘‘ ہے، مگر ہم نے اسے ’’مصیبت‘‘ بنا لیا ہے۔
تو پھر حل کیا ہے؟ حل کی جانب پہلا قدم تو یہ ہوگا کہ گوادر کو فوری طور پر ٹیکس فری زون قرار دیا جائے۔ دوم، شپنگ چارجز کو اگر کم نہیں کیا جاسکتا تو کم از کم خطے کی دیگر بندرگاہوں کے برابر تو لازمی لایا جائے۔ سوم، چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور یعنی سی پیک کو صرف سڑکوں تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ گوادر کو اس کا مرکز بنا کر وسط ایشیا سے ریل اور شاہراہیں جوڑی جائیں۔ چہارم، ایک مستقل ریگولیٹری باڈی تشکیل دی جائے جو نجی شعبے کو بندرگاہوں میں سرمایہ کاری پر آمادہ کرے۔ پنجم، ہمیں اپنی پالیسیوں میں ’’تجارت کو جنگ پر ترجیح‘‘ دینا ہوگی۔
قارئین کرام! بندرگاہیں صرف جہازوں کے کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ہوتیں۔ یہ قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں لکھتی ہیں۔ جب تک ہم گوادر کو خوابیدہ رکھیں گے، تب تک چاہ بہار اور دیگر بندرگاہیں ہمارے حصے کی دولت اور اثرورسوخ کو ہڑپ کرتی رہیں گی۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی جغرافیائی طاقت کو پہچانیں اور اسے استعمال کرنے کا ہنر سیکھیں۔ ورنہ آنے والی نسلوں تک گوادر کے آنسو پہنچیں گے تو وہ ہم سے یہی سوال کریں گی کہ ’’کیا ہم واقعی قسمت کے مارے تھے، یا اپنی نااہلی کے قیدی؟‘‘
گوادر کے آنسو اور نااہلی کے قیدی
May 19, 2025