اپریشن بنیان مرصوص میں ہمارے ازلی دشمن بھارت کو شکست فاش اور بین الاقوامی سطح پر سبکی اور ہزیمت اٹھانے کے باوجود اس بنیاد پر ہندو ریاست کے اندر بدلاؤ نہ آنا اور ڈھیٹوں کی طرح اپنی واضح ہار اور دھلائی کو نہ ماننے پر بضد رہنا اچنبھے کی بات نہیں مگر پھر بھی اقوام عالم پر قائم ایک بدنما دھبے کی مانند بھارتی ریاست اور عوام کی خود ساختہ فتح اور متکبرانہ جبلت کے بارے دنیا کے ذہن میں بہت سے سوالات موجود ہیں تو انکے جوابات حاصل کرنے کیلئے ہمیں 2500 سال قبل ہندووں کے مشہور بادشاہ چندر گپت موریا کے دور میں جانا ہوگا اور یہی وہ واحد حکمران تھا جس نے مسلمانوں کی آمد سے قبل پورے ہندوستان پر حکومت کی چندر گپت موریا کی کامیابی کی بنیادی وجہ اس کی عقل دانائی یا فہم و فراست نہیں تھی بلکہ اس کا ایک بے مثال وزیر خاص تھا جو کہ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ عیاری اور مکاری میں بھی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا تھا جس کانام چانکیہ تھا اور اسے چانکیہ کوٹلیہ کا لقب بھی دیا گیا تھا اور اس کی وجہ اس کے نزدیک کسی بھی حکمران کو طاقت حاصل کرنے کیلئے ہر قسم کی سازش مکاری جال بچھانے اور اپنے مقاصد کی خاطر انسانی جانوں کو ایک سیڑھی بنانا سب جائز ہے اور یہی وجہ تھی کہ چانکیہ نے اپنے اس شاطرانہ پن کو کتابی صورت دینے کی ٹھانی اور سیاہ اصولوں پر مبنی ایک کتاب لکھ ڈالی جسے ارتھ شاستر کا نام دیا گیا تھا جس میں اس نے ہندو افکار کے تحت معاشیات، سماجیات اور سیاسیات کے اصول بیان کیے اس کتاب کا اہم ترین حصہ وہ ہے جس میں دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات اسوار کرنے کیلئے خارجہ پالیسی متعین کرنا ہے یہ کہنا بے جانا ہوگا کہ ہندو معاشرت اور نفسیات ارتھ شاستر چانکیہ اور چندر گپت موریا کی تکونی مثلث کے اندر چھپی ہوئی ہے جو کوئی بھی ہندو ریاست کی نفسیات، نظریات اور خصلت کی حقیقی تصویر دیکھنا اور سمجھنا چاہتا ہے تو وہ ان تینوں کرداروں پر نظر ڈال سکتا ہے سب سمجھ آ جائیگا۔
ماضی میں بھارتی گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قاتل سابق وزیر اعلیٰ اور حالیہ مسلسل تیسری منتخب ہونیوالا بھارتی وزیر اعظم نریندرہ مودی بھی چانکیہ تھیوری کی پیداوار ہے جس نے گجرات سے لے کر پٹھان کوٹ، پلواما اور اب پہلگام تک چانکیہ کا انسانی جانوں کو سیڑھی بنانے کا فارمولہ اپناتے ہوئے اپنے ہی ملک کے معصوم شہریوں کی جانوں کی بلی چڑھاتے ہوئے ہر بار اپنے اقتدار کو دوام بخشا مگر پہلگام فالز فلیگ کے ذریعے مودی نے ایک بار پھر اپنے ہی شہریوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ کر اپنے ہمسایہ ملک پاکستان پر بغیر تحقیق اور ثبوت کے روایتی چڑھائی کی تو وہ اس کے گلے کی ہڈی بن گئی اور نتیجتاً چانکیہ اور اس کے منافق پیروکار نریندر موڈی کو منہ کی کھانی پڑی جس نے خطے کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا لیکن اس بار کائر دشمن بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے اور ملک پاکستان نے گجراتی قصاب کی سازش کو چانکیہ کی تھیوری سمیت اڑا کر رکھ دیا۔
پاکستان کو تر نوالا سمجھ کر انڈر ایسٹیمیٹ کر کے ہمیشہ کی طرح رات کی تاریکی میں بزدلانہ وار کر کے معصوم پاکستانی شہریوں کو شہید کرنے کے بعد پاکستان کے دفاعی جواب کے بدلے میں کھربوں ڈالر کے فرانسیسی جہاز اسرائیل ڈراون اور روسی انٹی میزائل سسٹم کی تباہی اور بربادی اور دنیا میں اپنی عزت کی نیلامی کرانے کے باوجود بھی واضح ہار کو فتح ثابت کرنے کے پیچھے گھٹیا ترین سوچ اور بزدلی کو سمجھنے کیلئے ہمیں ایک بار پھر چانکیہ کے دور سے براہ راست گاندھی کے دور میں آنا ہوگا جہاں ہمیں بھارت کی تخلیق کے وقت مہاتمہ گاندھی اور پنڈت جوہر لال نہرو جیسے منافق ہندو اکابرین نظر آتے ہیں جنہوں نے بظاہر تو ملک کی بنیاد سیکولرزم یعنی لا دینیت پر رکھی مگر پس پردہ وہ چندر گپت موریا اور چانکیہ کے دلدادا تھے گاندھی تو انڈیا کی تخلیق کے بعد زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے مگر پنڈت جواہر لال نہرو نے چانکیہ کے ہندو توا نظریہ کو تبھی سے عملی جامع پہنانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی تھی ۔
یہی وجہ تھی کہ پنڈت جوہر لال نہرو چانکیہ کو اپنا گروہ مانتے تھے اور وہ اس سے اس قدر متاثر تھے کہ کئی سال تک ہندو اخبار میں اپنے لکھے جانے والے کالم میں اپنا قلمی نام چانکیہ لکھتے رہے یہاں تک کہ بھارت کی حتمی فارن پالیسی بھی چانکیہ کے سیاسی اصولوں سے تابع ہو کر متعین کی گئی اور نہروجب وزیراعظم بنے تو اپنی خارجہ پالیسی واضح کرنے کیلئے بھارتی دفتر خارجہ کو ارتھ شاستر کا ایک جملہ لکھ کر ان کے حوالے کر دیا اور وہ تھا ’’ہمسایہ دشمن ہوتا ہے لیکن ہمسائے کا ہمسائے دوست ہوتا ہے‘‘ چانکیہ کا یہ منافقانہ اصول اب تک بھارتی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے اب بہت سے احباب کو سمجھ آ چکی ہوگی کہ اسلامی اورہمسایہ ممالک ہونے کے باوجود افغانستان اور ایران کی سرزمین آج تک پاکستان میں کھلی دہشتگردی اور پراکسی وار کے لیے کیوں کر استعمال ہوتی رہی ۔
چانکیہ ہر بھارتی لیڈروں کا کس قدر رول ماڈل ہے اس کا اندازہ دہلی میں موجود دپلومیٹک انکلیو جو علاقہ غیر ملکی سفیروں کی رہائش گاہوں اور دفاتر پر مشتمل ہوتا ہے اسے چانکیہ پوری اور مین بولیوارڈ کو کوٹلیہ مارک کہا جاتا ہے حکومتوں کو وسعت دینے اور ہمسائیوں سے فریب کاری کر کے دوسرے علاقوں کو ہڑپ کرنے کیلئے چانکیا کے چھ سنہری اصول ہیں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پچھلے 76 سالوں سے پاکستان کیخلاف اندرونی خانہ اور بیرونی خانہ درپیش جنگی اور سادشی صورتحال کے پس پردہ محرکات کے پیچھے بھارتی قوم کا چانکیہ مائنڈ سیٹ ہی ہے اور یہ اصول عیاری اور مکاری میں اپنی مثال آپ ہیں پہلے نمبر پر جس ہمسایہ کو ہڑپ کرنا ہو پہلے اس سے دوستی کرو تاکہ آپ کو اس کے گھر کے اندر جانے کا موقع ملے دوسے نمبر پر جب دشمن کے گھر کے اندر گھسنے کا موقع مل جائے تو وہاں کے لوگوں کو خریدو تیسرے نمبر پر اپنے خریدے گئے لوگوں کے ذریعے وہاں بغاوتیں اور جھگڑے پیدا کرو چوتھے نمبر پر ہمسایہ کو ضرب لگانے اور کھانے کیلئے ہمسایہ کے ہمسایہ سے دوستی کرو پانچویں نمبر پر جب بغاوتوں اور اندرونی خانہ جنگی سے دشمن ملک کافی کمزور ہو جائے تو اس پر پوری طاقت سے حملہ کر دو چانکیہ کا ایک اور اصول جو کہ ہٹلر سے کافی مشاہبت رکھتا ہے وہ یہ کہ جھوٹ اتنا بولو کہ بات سچ لگنے لگے۔
چندر گپت موریا اور چانکیہ کے پیروکار اور انکے اصولوں سے یہ بات تو طے ہے کہ ہمارا دشمن بزدل تو ہے ہی مگر کم ظرف بھی کمال کا ہے جس نے اپنی شرمندگی اور ہار کی خفت مٹانے کے لئے گودی میڈیا کے ساتھ مل کر جنگی ماحول بنایا جنگ کی اور ہر محاذ پر پاکستان سے جوتے کھائے مگر گودی میڈیا نے اس قدر جھوٹ بولا کہ بھارتی عوام کو مکمل طور پر ماموں بنا ڈالا ۔ اپریشن بنیان مرصوص نے پوری دنیا پر ثابت کر دیا کہ پاکستان ناقابل تسخیر ملک ہے اور جنگ کی سنگین صورتحال کے دوران پاکستانی افواج ریاست عوام اور میڈیا نے کتنی دانائی اور فہم و فراست سے اپنے اوپر مسلط ہونے والی جنگ کو ایک سیسہ پلائی دیوار بن کر الٹا بھارت پر ہی مسلط کر کے ان کے نام نہاد اپریشن سندور کو بھارتی مانگ میں بھرنے سے پہلے ہی اجاڑ کر ودوہ کر دیا۔ آج بھارت پاکستان کی بدولت پوری دنیا میں پیاز اور جوتے اکٹھے کھا رہا ہے اور چانکیہ کے چیلوں کو نہ صرف جنگی بلکہ سفارتی محاذپر بھی شکست فاش ہو رہی ہے۔
چانکیہ ڈاکٹرائن اور بھارتی شکست فاش
May 19, 2025