پاکستان میں حالیہ برسوں میں ایک غیرمعمولی مگر تشویشناک رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے جسے سنجیدگی سے سمجھنے، پرکھنے اور چیلنج کرنے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، بالخصوص یوٹیوب، ٹک ٹاک اور فیس بک پر کچھ خود ساختہ دانشور، جن کے پاس نہ کوئی تعلیمی سند ہے اور نہ علمی میدان میں کوئی خدمت، عوام بالخصوص نوجوانوں میں یہ بیانیہ پھیلا رہے ہیں کہ تعلیم ایک فضول مشق ہے۔ ان کے مطابق آج کے دور میں صرف ہنر سیکھنا کافی ہے اور ڈگری یا رسمی تعلیم وقت اور پیسے کا ضیاع ہے۔ اس موقف کو بظاہر تو عملی دنیا سے قریب سمجھا جا سکتا ہے، لیکن جب ہم اس کا تجزیہ تاریخی، معاشرتی، اقتصادی اور بین الاقوامی سیاق و سباق میں کرتے ہیں تو یہ بیانیہ شدید طور پر سطحی، گمراہ کن اور قوم کی فکری بنیادوں کو کمزور کرنے والا نظر آتا ہے۔
سب سے پہلے اس بات کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ اسکل بیسڈ تعلیم یعنی ہنر مندی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ دنیا ڈیجیٹل معیشت کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ فری لانسنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ایپ ڈیولپمنٹ، مصنوعی ذہانت، اور ڈیٹا اینالیسز جیسے شعبوں میں روزگار کے مواقع واقعی موجود ہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان مہارتوں سے بہت سے نوجوان پاکستان میں اور دنیا بھر میں مالی طور پر مستحکم ہوئے ہیں۔ Fiverr، Upwork، اورToptalجیسے پلیٹ فارمز پر لاکھوں پاکستانی کام کر رہے ہیں، اورایکرپورٹ کے مطابق صرف Fiverr پر پاکستانی فری لانسرز نے 120 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ کمایا۔ یہ بلاشبہ ایک مثبت رجحان ہے جس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ رسمی تعلیم کی اہمیت کو ختم کر دیتا ہے؟ کیا معاشرے صرف ہنر مند افراد سے ترقی کرتے ہیں؟ کیا ہمیں ایسے شہری درکار ہیں جو صرف کام تو کر سکتے ہوں، مگر تنقیدی سوچ، سماجی فہم، جمہوری شعور، اور تحقیق و اختراع سے محروم ہوں؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے ہمیں صرف دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی تعلیمی پالیسیوں کا جائزہ لینا کافی ہے۔
امریکہ نے وفاقی تعلیم بجٹ میں تقریباً 330 ارب ڈالر کی منظوری دی، جس میں سے 79 ارب ڈالر صرف K–12 اسکولنگ اور 98 ارب ڈالر ہائیر ایجوکیشن کے لیے مختص کیے گئے۔ جرمنی، جس کی آبادی پاکستان سے تقریباً 60 فیصد کم ہے، ہر سال اپنی جی ڈی پی کا 4.8 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔ چین نے اپنی پانچ سالہ تعلیمی پالیسی 2021–2025 میں سائنسی تحقیق، ہائر ایجوکیشن، اور بنیادی تعلیم میں یکساں ترقی کو یقینی بنانے کے لیے 1.3 ٹریلین یوآن مختص کیے۔ جنوبی کوریا نے تعلیمی بجٹ میں 2024 میں 81.2 ٹریلین وون مختص کیے، اور جاپان میں صرف تحقیق و ڈیولپمنٹ پر سالانہ 20 بلین ڈالر سے زائد خرچ کیے جاتے ہیں۔
کیا یہ سب ترقی یافتہ اقوام اس قدر بے وقوف ہیں کہ اربوں کھربوں کا بجٹ ایک "فضول" چیز پر خرچ کر رہی ہیں؟ کیا وہ اپنے شہریوں کو صرف ہنر سکھا کر انہیں ایک محدود دائرے میں مقید کر دینا چاہتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ درحقیقت، تعلیم اور ہنر لازم و ملزوم ہیں، لیکن تعلیم ایک بنیادی اور مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔
تعلیم فرد کی شخصیت، اخلاق، سوچنے اور دلیل دینے کی صلاحیت کو نکھارتی ہے۔ تعلیم انسان کو صرف نوکری کے قابل نہیں بناتی، بلکہ معاشرے میں ایک بامعنی کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ تعلیم انسان کو تاریخ، سیاست، معیشت، ثقافت اور سائنسی علوم سے آشنا کرتی ہے تاکہ وہ محض روزگار نہیں، بلکہ قیادت اور فیصلہ سازی کے قابل بنے۔
اب ہم پاکستان کے موجودہ تعلیمی اور معاشی حالات کی طرف آتے ہیں۔ پاکستان میں ہنر مند افراد کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں، مگر یہ ماننا کہ صرف ہنر کافی ہے، ایک غیرذمہ دارانہ خیال ہے۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح 62.5 فیصد ہے، جو کہ جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش (76%) اور بھارت (77.7%) سے کہیں پیچھے ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق، صرف 9 فیصد نوجوان اعلیٰ تعلیم تک رسائی رکھتے ہیں۔ دوسری طرف، ملک میں بے روزگاری کی شرح 6.4 فیصد ہے , جس میں سب سے زیادہ متاثرہ طبقہ وہ ہے جو نہ مکمل تعلیم یافتہ ہے، نہ ہنر مند۔
جب تعلیمی ادارے کمزور ہوں، جب نصاب غیرمتعلق ہو، اور جب ریاستی پالیسی میں تعلیم کو مرکزی حیثیت نہ دی جائے تو پھر معاشرہ ایسے رجحانات کا شکار ہو جاتا ہے جہاں جعلی دانشور تعلیم کو ناکام قرار دے کر نوجوانوں کو فقط پیسہ کمانے والی مشینوں میں بدلنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کا بیانیہ وقتی طور پر دلکش لگتا ہے، مگر یہ نوجوانوں کو نہ سوچنے کی صلاحیت دیتا ہے، نہ شعور، نہ تحقیق، نہ تخلیق، اور نہ ہی عالمی سطح پر کسی بڑے رول کے لیے تیار کرتا ہے۔
یہ بیانیہ دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی سستی مزدور پیدا کرنے والی پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے، جس کا مقصد صرف کام کرنے والی قوت پیدا کرنا ہے، نہ کہ سوال اٹھانے والے، تجزیہ کرنے والے یا متبادل سوچ رکھنے والے انسان۔ اس طرز فکر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ معاشرہ سائنسی، ادبی، سیاسی، اور تحقیقی میدانوں میں بانجھ ہو جاتا ہے۔ اگر صرف ہنر کافی ہوتا تو افریقہ، افغانستان، اور دیگر کمزور معیشتیں کب کی دنیا کے شانہ بشانہ ہوتیں۔
پاکستان جیسے ملک کو صرف ہنر مند نہیں، تعلیم یافتہ، باشعور، اور تخلیقی افراد کی ضرورت ہے۔ ہمیں سائنسدان، ماہرینِ عمرانیات، فلاسفرز، مصنفین، ڈاکٹرز، محققین، اور تعلیمی قائدین کی اشد ضرورت ہے جو قومی ترقی کی راہ متعین کر سکیں۔ اگر صرف ہنر کافی ہوتا تو آج ہر ٹیکنیشن ملک چلا رہا ہوتا، ہر یوٹیوبر پالیسی بنا رہا ہوتا، اور ہر فری لانسر علمی ادارے چلا رہا ہوتا۔
یہ درست ہے کہ پاکستان کا تعلیمی نظام اصلاحات کا محتاج ہے۔ نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا، اساتذہ کی تربیت کو بہتر بنانا ہوگا، اور اداروں کو کرپشن سے پاک کرنا ہوگا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم تعلیم کی اہمیت ہی کو جھٹلائیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی خراب سڑک کی وجہ سے ہم سفر کرنا ہی بند کر دیں، یا خراب دوا کی وجہ سے ہم علاج ہی ترک کر دیں۔
لہٰذا، ہمیں بطور قوم اس غیرذمہ دارانہ بیانیے کے خلاف ایک فکری مزاحمت پیدا کرنا ہوگی۔ ہمیں نوجوانوں کو یہ سمجھانا ہوگا کہ تعلیم صرف ڈگری نہیں، ایک شعور ہے، ایک نظریہ ہے، ایک طرزِ زندگی ہے۔ اگر ہم واقعی ترقی یافتہ پاکستان کا خواب دیکھتے ہیں تو تعلیم کو مرکزی حیثیت دینا ہوگی۔ ہنر کو تعلیم کا معاون بنانا ہوگا، نہ کہ اس کا متبادل۔ ورنہ ہم سستی لیبر تو پیدا کر لیں گے، مگر رہنما، مفکر اور مصلح نہیں۔
تعلیم یا ہنر - ایک غلط فہمی کا تجزیہ
May 19, 2025