ڈیمز بنائیں پاکستان بچائیں(2)
شدید بارشوں کے موسم میں برسنے والا پانی اور پہاڑوں پر برف کے پگھلنے سے بہنے والا پانی بھی ذخیرہ نہیں کیا جاتا۔ حکومت نے اب کچھ ڈیم بنانے کی طرف توجہ تو دی ہے لیکن ان کی تعمیر کے لئے ابھی کافی وقت درکار ہوگا۔ زیر زمین پانی بھی تیزی سے کم ہو رہا ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ئ میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کے پانی کی منصفانہ تقسیم کے لئے ’’سندھ طاس‘‘ معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت تین مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب سے آنے والے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا جبکہ پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریاؤں، بیاس، راوی اور ستلج کا کنٹرول بھارت کو دے دیا گیا۔ زرعی ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان میں فصلوں کی کاشت کا زیادہ تر دارومدار دریاؤں سے آنے والے پانی پر ہے۔ ایسے میں سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔قیامِ پاکستان کے وقت ہر ایک پاکستانی کے لئے پانچ ہزار کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جو اب کم ہوتے ہوتے ایک ہزار کیوبک میٹر سے بھی کم ہو چکا ہے۔ اگلے کچھ برسوں تک پانی کی فی کس مقدار 750 کیوبک میٹر تک ہونے کا خطرہ ہے جس سے پاکستان پانی کی شدید کمی والے ممالک میں شامل ہو جائے گا،جو پاکستانیوں کے لئے لمحہئ فکریہ ہے۔پاکستان میں استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل کرنے کے بھی کوئی خاطر خواہ اقدامات موجود نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تقریباً دس بڑے شہر 65 فیصد سے زیادہ گندے پانی کا اخراج کرتے ہیں، جس میں سے صرف 8 فیصد پانی کو ہی ری سائیکل کیا جاتا ہے،جبکہ باقی پانی دریاؤں میں بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے۔ ملک کی آبادی لگ بھگ 22کروڑ سے زائد ہے اور ملک میں پانی کی صورت حال کے پیش نظر شہریوں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔اس وقت جو حال چولستان۔تھر یا پیرکوہ ڈیڑہ بگٹی کا ہے وہی حال ملک کے باقی حصوں کا بھی ہونے والا ہے پوری دنیا میں اس حوالے سے پاکستان تیسرا غیر ذمہ دار باسیوں کا ملک ہے۔ پانی کی کمی تمام بڑے مسائل میں سب سے بڑا مسلہ ہے۔پچھلے کچھ دن سے جانوروں پرندوں انسانوں کی اموات ہورہی ہے۔ افسوس کہ حاکم وقت کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگ رہی ۔۔سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کو اپنے مفادات کی لڑائی سے کچھ فرصت ہو تو تھر اور چولستان کے ریگستانوں میں پانی اور خوراک کی کمی سے تڑپ تڑپ کر مرنے والے انسانوں اور جانوروں کی بھی خبر لے لیں.خدا کا واسطہ تمام مذہبی سیاسی ہر قسم کے اختلاف چھوڑ کر اس اہم مسلے پر توجہ دیں ۔۔اس وقت تمام ترقیاتی منصوبے جو ابھی بن رہے ہیں سب کو روک کر صرف ڈیم بنانے پر توجہ دی جاے ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔۔اس سے پہلے کہ قحط سالی دور شروع ہو جاے ۔۔ملک کو پانی کی کمی سے بچانے میں۔ڈیم بنانے میں متحد ہو کر بھرپور کمپین چلائیںیاد ہو گا آپ سب کو دو سال پہلے بھی کچھ علاقوں میں اسی طرح کے حالات تھے سوشل میڈیا پر کمپین چلاء گء ان علاقوں میں پانی کے ٹینک بھیجے گے پھر رات گء اور بات گء ۔۔لیکن اب کی بار ہم سب پاکستانیوں نے پاکستان کی خاطر پاکستان کے لیے پاکستان کی اپنی آنے والے نسلوں کو پانی کی کمی سے بچانے کے لیے مضبوط کمپین چلانی ہے ایسی کمپین جو رات گء بات گء والی نہ ہو بلکہ آنے والے وقت کے لیے اس کا مکمل حل ڈھونڈنا ہے ۔۔ہم نے اپنے ہمسائے ملک بھارت کا ہمیشہ مذاق اڑایا ہے ۔۔لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ بھارت میں اس وقت انڈیا نے مشرقی دریاؤں پر 2010 تک 62 سے زائد ڈیم بنا?۔۔اور ہمارے ہاں جب بھی ڈیم بنانے کی بات ہو ہماری اپنی بیوقوف عوام جن کو صرف سیاسی نعروں پیچھے لگایا ہوا۔(ختم شد)
اپنے اپنے لیڈروں کے لیے ڈیم خلاف سڑکوں پہ نکل آتے ہیں۔۔حالانکہ یہ جانتے ہیں کہ مشکل وقت میں مشکل حالات کا سامنا انھوں نے کرنا نہ کہ ان کہ لیڈروں نے جو ہمیشہ مشکل وقت میں راتوں رات لندن دوبء امریکہ نکل جاتے ہیں
کیا آپ جانتے ہیں کہ دریائے کابل، اٹک کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے. یہیں آکر کالام سے آنے والا دریائے سوات بھی دریائے سندھ میں شامل ہوجاتا ہے. اٹک سے کالا باغ تک دریا پہنچتا ہے تو یہاں اللہ نے پاکستان کو قدرتی ڈیم عطا کر رکھا ہے. یہ کالا باغ ڈیم ہے. اس ڈیم کی تعمیر پر ہمارے کچھ رہنما، یوں بھڑک جاتے ہیں جیسے یہ ڈیم انڈیا میں بن رہا ہے. خدارا اس ملک کو بنجر ہونے سے بچائیں. پاکستان ہر مون سون سیزن میں 21 بلین ڈالر کا پانی، سمندر کی نذر کر دیتا ہے. اس نقصان کا ازالہ صرف اور صرف نئے ڈیمز کی تعمیر میں پوشیدہ ہے۔تو پھر سوچنا چھوڑیں آئیں ملکر کمپین چلائیں آج سے شروع کریں بلکہ ابھی سے شروع کریں۔ڈیم بنائیں ملک بچائیں۔