پاکستانی معیشت؟
شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تو پہلے سے بدحال معشیت کی مزید تباہ حالی شروع ہوگئی ۔ دوسری طرف سابق وزیراعظم عمران خان بھی کسی طور پیچھے ہٹنے اور حالات کی نزاکت کو سمجھنے کو تیار نہیں۔ جلسوں کے دور کے اب دھرنوں کا دور شروع ہوا چاہتا ہے ۔ جو ہوا ، اور جو کچھ ہو رہا ہے ۔وہ ٹھیک نہیں ! قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ملک اتنی انارکی کا متحمل کیسے ہوگا ؟آج سری لنکا کے بارے میں رپورٹ دیکھی تو دل لرز گیا ۔ وہاں زرمبادلہ کی شدید قلت ہے یہ ملک 51 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ اْتارنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ اور اب ان کے پاس صرف دو ارب ڈالر بچے ہیں جس میں سے چار ارب ڈالر اس ستمبر تک ادا کرنے ہیں ۔ آج ملک کو دیوالیہ قرار دے دیا گیا ۔عوام کو سسکتے اور روتے ہوئے دیکھا ۔ بچوں کے پینے کا دودھ تک ختم ہوچکا ہے ۔سری لنکا میں مشتعل مظاہرین نے حکومت کے حامیوں سے پرتشدد جھڑپوں کے بعد حکمران راجا پکشے خاندان اور متعدد اراکین اسمبلی کے مکانات کو نذرِ آتش کر دیا ہے۔واضح رہے کہ سری لنکا میں معاشی بحران کی وجہ سے شروع ہونے والے احتجاج کے نتیجے میں وزیراعظم مہندا راجا پکشے استعفیٰ دیے چکے ہیں اس کے باوجوداحتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ تھم نہیں سکا۔بحرالہند میں سوا دو کروڑ سے زیادہ آبادی والے اس ملک کو بڑے پیمانے پر بجلی کی لوڈشیڈنگ، ایندھن، ضروری اشیائے خورد و نوش اور ادویات کی کمی کا سامنا ہے جس کے سبب عوام کا حکومت کے خلاف غصہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر پہلا خیال اپنے ملک کا آیا کیا ہوگا ہمارا؟
حکمران اتحاد پی ڈی ایم جو پارلیمانی جماعتوں مسلم لیگ ن ،پیلز پارٹی، جمیت علمائ اسلام(ف)، عوامی نیشنل پارٹی ،اختر مینگل ،شاہ زین بگٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں جو پارلیمان میں ہیں انکے اور ایک جماعت تحریک انصاف کے درمیان مئی کے آخری ہفتے گھمسان رن پڑنے جا رہا ہے۔سابق وزیراعظم عمران خان کو اس وقت پاکستان کا مقبول ترین سیاسی رہنما کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ وہ اب تک اسلام آباد ،پشاور، لاھور ،میاانولی ، اور ایبٹ آباد میں بہت بڑے جلسے کر چکے ہیں ۔کچھ عرصے تک یوں لگتا تھا کہ عمران خان اپنی 2018 والی مقبولیت کھو چکے ہیں مگر غیر ملکی مراسلے کے بعد یوں لگتا ہے کہ عمران خان 2018 سے زیادہ مقبول لیڈر بن کر ابھر رہے ہیں ۔ مگر مبینہ طور پر آپریشن رجیم چنج کے بعد جس ٹولے کو اقتدار میں لا کر بیٹھا دیا گیا اسکی ساکھ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے آپ موجودہ وزیراعظم سمیت کابینہ کے نام پڑھتے جاہیں تو وہ محاورہ یاد آتا ہے کہ پڑھتا جا شرماتا جا۔موجودہ صورتحال میں ملک اور ملکی معشیت بے یقینی کا شکار ہے ۔ 10 مئی کو سٹاک مارکیٹ 1600 پوائنٹس کریش کر گئی ۔ ڈالر مزید مہنگا ہو کر 188 کا ہو چکا ۔ زر مبادلہ کے ذخائر ساڑھے 22 ارب ڈالر سے کم ہو کر صرف 10 ارب ڈالر رہ گئے ملک دیوالیہ ہونے کے صرف دو ماہ کے فاصلے پر ہے تجارتی خسارہ 40 ارب ڈالر تک پہنچ گیا
ملک میں مہنگائی کی شرح 13 فیصد سے تجاوز کر گئی۔ مہنگائی کا طوفان سر پر کھڑا ہے کوئی ملک قرض دینے کو تیار ہی نہیں ۔سیاستدانوں میوزیکل چئیزر نے پاکستان کی ساکھ اور ملکی معشیت کو بھیانک دور میں داخل کر دیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ملک کب اس سیاسی بے ہنگم اور غیر یقینی کی صورت سے نکلے گا ؟