مشکل حالات میں مشکل فیصلے کرنا ہونگے

ملک میں غیر یقینی کی فضا برقرار ہے معاشی حالت دن بدن بگڑتی چلی جارہی ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں ملکی اقتصادیات کی جو حالت تھی آج اس سے بھی بدتر ہوچکی ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے اشیاء کی پیداواری لاگت میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ حکومت ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی اپنے پائوں جمانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ عوام حیرت میں گم حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ کب انہیں ان مشکلات حالات سے نجات دلانے کیلئے کوئی قدم اٹھاتی ہے۔ مشکل ترین حالات میں حکومت کو مشکل فیصلے کرنا ہوں گے تاکہ ملک کو معاشی دلدل سے نکالا جاسکے۔ افراط زر پر قابو پانے کیلئے زرمبادلہ کے ذخائر استعمال کرنے کے بجائے متبادل حکمت عملی اپنائی جائے جس سے تجارتی خسارہ مزید کم ہوگا۔ بڑے تاجر وصنعت کاروں کو مہنگائی کے بوجھ کا احساس کرتے ہوئے عام آدمی کو ریلیف دینا ہو گا ۔ بزنس کمیونٹی حکومت کے ساتھ مل کر چلے ۔انڈسٹری نے ریکارڈ منافع کمایا‘ ثمرات مزدور طبقے کو بھی ملنے چاہئیں۔ دفاعی پیداوار کے شعبے میں وسیع مواقع موجود ہیں۔ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں ا شتراک سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں کرپشن کا فروغ اور بلند ہوتا گراف اب بین الاقوامی سند حاصل کرچکا ہے۔ پاکستان کی تمام جمہوری قوتوں نے صوبائی خودمختاری کیلئے طویل جنگ لڑی۔ 1973ء کا متفقہ آئین سیاست دانوں کی اجتماعی سوچ کا نتیجہ تھا اور پھر کئی سال بعد 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو کافی حد تک خود مختاری مل گئی۔ صوبوں سے مقامی حکومت تک اختیارات مگر آج تک منتقل نہ ہوئے۔ 2008ء سے جمہوری تسلسل جاری ہے۔ بلدیاتی جمہوریت میں سیاسی نرسری کا کام کرتے ہیں۔اختیارات کے بغیر کوئی میئر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ دیکھ کر دکھ ہوا کہ دنیا کے سب سے زیادہ کرپٹ آخری40 ممالک میں اکثریت اسلامی ممالک کی ہے جن میں پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش‘ افغانستان اور ایران جیسے ممالک شامل ہیں جبکہ دوسری طرف کرپشن فری ممالک میں اکثریت غیر اسلامی ممالک کی ہے ۔ پاکستان میں کرپشن عروج پر ہے۔ پولیس پہلا اور عدلیہ دوسرا ، سرکاری ٹریڈنگ تیسرا اور صحت چوتھا کرپٹ ترین ادارہ ہے۔ سرکاری کام رشوت دیئے بغیر ممکن نہیں۔ نوازشریف دور میں پاکستان 117 ویں نمبر پر تھا۔ اب 180 ممالک میں 140 ویں نمبرپر آگیا ہے۔ آج پاکستان دنیا کے کرپٹ ترین ممالک شام‘ صومالیہ اور جنوبی سوڈان کی صف میں کھڑا ہے۔ ہمارے اراکین پارلیمنٹ جس طرح دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹتے ہیں کسی اور ملک میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کیا ہم نے انتخابات میں سیاستدانوں کے کروڑوں میں ریٹ لگتے ہوئے نہیں دیکھے؟۔معاشی خود مختاری ختم ہوتی جارہی ہے ۔ہماری خارجہ پالیسی بھی آزاد نہیں۔صدارتی نظام کی بحث بھی ایک مرتبہ چھڑی تھی ۔
نظام بدلنے کی بجائے ایک ترمیم یہ کی جاسکتی ہے کہ وزراء ،ممبران پارلیمنٹ سے نہیں لئے جائیں گے بلکہ ماہرین ،قومی اسمبلی اور سینٹ ممبران کو ان کی تقرری اور مواخذے کا اختیار دیا جائے۔ یوں امریکہ کے صدارتی نظام کا یہ واحد حسن ہمارے پارلیمانی نظام کے اندر آجائے۔ سیاست میں کچھ بھی ہو مگر ہمیں اپنی ریاست کو محفوظ رکھنا ہوگا جس کی سلامتی اور خوشحالی میں ہی ہماری بقا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ وہ اگر اپوزیشن میں آگئے تو زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے اور اب یہ دکھائی بھی دے رہا ہے۔ ان تمام حالات اور معاملات سے ملک کی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ عمران خان نے پچھلے ساڑھے تین سال کے دوران اپوزیشن، میڈیا ، تاجر برادری کے ساتھ جنگ جاری رکھی۔ کرپشن چور ڈاکو کی گردان کے علاوہ کوئی کام نہ کرسکے۔ مہنگائی کی شرح 23 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے عوام نئے پٹرول بم سے فی الحال بچ گئے ہیں وزیراعظم نے پٹرول کی قیمت میں اضافے کی تجویز مسترد کر دی ہے۔ حکومت اس بڑھتی قیمت کا بوجھ اپنے اوپر لے گی صرف ایک سال میں 20 لاکھ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے آگئے ہیں۔فوج نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ سیاسی جماعتوں نے ا نتہا پسندانہ رویہ اپنایا تو بحران پیدا ہوگا۔ غربت بیروزگاری آبادی میں اضافہ جیسے مسائل کے حل کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھنا ہوگا۔