’کیا پاکستان اقلیتوں کے لیے محفوظ ملک ہے؟‘
اس مضمون کے عنوان کو واوین میں لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ر اقم کے گزشتہ مضمون کو پڑھنے کے بعد ایک قاری نے یہ سوال کیا تھا۔ یوں اس مضمون کو گزشتہ مضمون کا تسلسل سمجھا جانا چاہیے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ مضمون ایک ایسے وقت میں لکھا جارہا ہے جب پشاور میں دو سکھ تاجروں کے قتل کو ابھی دو روز ہی گزرے ہیں۔ اس دوہرے قتل کی وجوہ تو تادمِ تحریر سامنے نہیں آسکیں اور نہ ہی کسی تخریب کار گروہ نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے تاہم پشاور کے کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) اعجاز خان نے اسے ’دہشت گردی کی واردات‘ قرار دیا ہے۔ امکان یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس واقعے سے ایک روز پہلے سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں داعش کی خراسان شاخ کا جو ایک کمانڈر مارا گیا تھا اس کا بدلہ لینے کے لیے اسی گروہ نے یہ حملہ کیا ہوگا لیکن اس بارے میں کوئی مصدقہ اطلاعات نہیں ہیں، البتہ یکم اکتوبر 2021ء کو چارسدہ میں ایک سکھ حکیم کو قتل کرنے کی ذمہ داری اس گروہ نے قبول کی تھی۔ خیر، اس واقعے کے محرکات کچھ بھی ہوں اور اس کے ذمہ داران کوئی بھی ہوں، حکومت کو مذمتی بیانات سے آگے بڑھ کر ان کا کھوج لگانا چاہیے اور آئندہ ایسے واقعات کے تدارک کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے چاہئیں۔
اب واپس آتے ہیں اس سوال کی طرف جو آج کے مضمون کا عنوان ہے۔ پاکستان کو اس وقت جن بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ ایک ایسا ترقی پذیر ملک ہے جس کی معیشت مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) جیسے اداروں اور دوست ممالک کی طرف سے فراہم کردہ قرضوں کی بے ساکھیوں کے بغیر یہ ملک چلنے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ یہی مسئلہ اس ملک کے اور بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ اس کے علاوہ، ایک بڑا، سنجیدہ اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ ملک ایک مضبوط اور مستحکم معاشرے سے محروم ہے۔ معاشرے کی مختلف اکائیوں کے ایک دوسرے سے جڑنے کا سب سے بڑا وسیلہ مذہب ہے۔ کچھ اور وسائل بھی معاشرتی اکائیوں کی باہم وابستگی کا ذریعہ بنتے ہیں لیکن وہ مذہب جتنے اہم نہیں ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ اس سلسلے میں ان کا کردار مذہب جتنی اہمیت کا حامل دکھائی نہیں دیتا۔ اندریں حالات، لوگوں کا مذہب پر انحصار بھی بڑھ جاتا ہے اور اس سے ان کے تعلق میں جذباتیت بھی ضرورت سے زیادہ غالب آنے کے امکان ناگریز ہو جاتا ہے۔
یہاں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کے مذہب پر انحصار اور جذباتیت کی وجہ سے کیا ان میں ایسے رویے بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو انھیں خود سے مختلف عقائد و نظریات رکھنے والوں کے خلاف تشدد پر مائل کرسکتے ہیں؟ یہ سوال جتنی آسانی سے الفاظ کی شکل میں ڈھالا جاسکتا ہے اس کا جواب اتنا ہی پیچیدہ ہے۔ جہاں تک قادیانی مذہب، عقیدۂ ختمِ نبوت اور ناموسِ رسالت کی بات ہے تو اس سوال کا جواب اثبات میں ہی ہوگا کیونکہ جنابِ رسالت مآبﷺ کی ذات سے وابستگی کو لوگ اپنی دنیوی فلاح اور اخروی نجات کا واحد وسیلہ شمار کرتے ہیں، لہٰذا ان لوگوں کا اس خاص معاملے میں شدت کی طرف مائل ہونا بعید از قیاس نہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قادیانی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اس ملک کے مختلف شہروں میں کاروبار اور نوکریاں بھی کرتے ہیں اور تعلیم کے حصول کے لیے مختلف اداروں میں داخل بھی ہوتے ہیں، جہاں تمیز و تفریق کے واقعات کے نسبتاً کم پیش آتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جہاں کہیں ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے اسے ذرائع ابلاغ کے وسیلے سے ایک مخصوص طبقہ اس حد تک بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے کہ زیادہ تر لوگ پورے واقعے کا جائزہ لیے بغیر اس پروپیگنڈا کا شکار ہو جاتے ہیں جو اس مخصوص طبقے کی طرف سے کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے اقلیتوں کے لیے محفوظ ملک ہونے سے متعلق اعداد و شمار کا ڈھیر لگایا جاسکتا ہے لیکن ایک اخباری مضمون اس طرح کی تفصیلات کا بوجھ اٹھانے کا متحمل نہیں ہوسکتا، لہٰذا یہاں صرف چند ایک باتیں ہی بیان کی جارہی ہیں۔ جو قارئین اعداد و شمار کا جائزہ لینے میں دلچسپی رکھتے ہوں وہ 1951ء میں ہونے والی (متحدہ) پاکستان کی پہلی مردم شماری، سقوطِ ڈھاکا کے بعد 1972ء میں ہونے والی پاکستان کی تیسری مردم شماری اور قادیانیت کو الگ مذہب کے قرار دیے جانے کے بعد 1981ء میں ہونے والی ملک کی چوتھی مردم شماری اور 2017ء میں ہونے والی چھٹی اور آخری مردم شماری کے نتائج سامنے رکھ کر مسلم اور غیر مسلم آبادی کے تناسب کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ سرکاری سطح پر اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے جائزے کے لیے سپریم کورٹ کے سابق سینئر جج اور قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان رانا بھگوان داس، ہندو دلت کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر کرشنا کماری کوہلی اور پاکستان کی پہلی خاتون ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس (اے آئی جی) اور اقوام متحدہ کے کسی امن مشن پر پہلی خاتون پولیس کمشنر ہیلینا اقبال سعید جیسی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایک خاص ایجنڈے پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں یا این جی اوز نے غلط اعداد و شمار اور منفی مثالوں کی تشہیر کر کر کے پاکستان کے اندر اور باہر لوگوں کو اس بات کا یقین دلانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔ عام طور پر لوگ اصل مآخذ تک رسائی نہیں رکھتے یا تحقیق کی زحمت نہیں اٹھانا چاہتے، لہٰذا وہ تصدیق کیے بغیر ہر سامنے آنے والی بات کو سچ مان لیتے ہیں۔ اسی بات کا این جی اوز سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتی ہیں، اور اب سوشل میڈیا نے ان کے کام کو اور بھی زیادہ آسان بنا دیا ہے، لہٰذا وہ غلط سلط اعداد و شمار اور جھوٹ پر مبنی واقعات کو مسلسل سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر ایک تواتر سے دوہرا کر لوگوں کی ذہن سازی کرتی ہیں۔ اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ بالعموم تمام پڑھے لکھے لوگ اور بالخصوص نوجوان کسی بھی قسم کے تعصب کا شکار ہوئے بغیر اصل مآخذ تک رسائی حاصل کریں اور ان کا جائزہ لے کر مضامین، بلاگز اور وی لاگز وغیرہ کی صورت میں سوشل میڈیا پر وہ اعداد و شمار اور حقائق سامنے لائیں جن کا مقصد منفی پروپیگنڈے کا پردہ چاک کرتے ہوئے لوگوں کو یہ بتانا کہ اصل بات کیا ہے۔ راقم کا اسی مؤقر جریدے میں 12 مئی 2022ء کو شائع ہونے والا گزشتہ مضمون (کیا پاکستان کی ہندو آبادی کم ہوئی ہے؟) اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا جس میں اعداد و شمار کی مدد سے حقائق کا جائزہ پیش کیا گیا۔