میرا سکول اور عمران خان کا جلسہ

لندن کی خوش قسمتی کہ دنیا میں اسے آج بھی سب سے زیادہ کاسمو پولیٹن، تاریخی اور پسندیدہ شہر تصور کیا جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ پرانی وضع کے گوروں اور گوریوں کے نزدیک موجودہ لندن اب وہ لندن نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا۔ یہ واقعی حقیقت ہے کہ چالیس 45 برس قبل لندن شہر کی ہر دلعزیزی کے جو بنیادی پہلو نمایاں تھے وہ اب ناپید ہو چکے ہیں۔ وسطی لندن میں واقع عالمی شہرت کا حامل تاریخی ہائیڈپارک اور اس کا جلسے جلوسوں‘ تقاریر اور آزادی اظہار کیلئے مختص کیا ’’سپیکر کارنر‘‘ دنیا بھر سے آئے سیاحوں کی توجہ اور دلچسپی کا گو آج بھی مرکز ہے تاہم 1538ء میں قائم کیا یہی وہ ہائیڈپارک ہے جہاں سے چند گز دور تین مرتبہ وزیراعظم کے منصب پر فائز رہنے والے مسلم لیگ نون کے قائد اور گزشتہ چند برس سے بغرض علاج لندن میں مقیم محمد نوازشریف کی رہائش گاہ ہے جہاں سے انہیں پارک میں سیروتفریح اور صبح کی ورزش کرنے کیلئے چند منٹ درکار ہوتے ہیں۔ اسی پارک میں وہ بیرونی راستہ ہے جہاں آجکل پاکستانی سیاست کی رونقیں اور مفت سیاسی تماشوں سے یہاں آئے سیاح بھی خوب محظوظ ہورہے ہیں۔ ہر چوتھے پانچویں ہفتے ’’ایون فیلڈ‘‘ کے سامنے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون کے کارکنوں کے درمیان جو کچھ ہوتا ہے اور یہ کارکنان ایک دوسرے کیخلاف ٹھیٹھ پنجابی میں جو غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے اپنے مخالف لیڈروں کی جس طرح ’’لاہ پا‘‘ کے رکھتے ہیں‘ بعض اوقات گوریوں کو اسکی ٹرانسلیشن کے بعد مفہوم سمجھانے میں انتہائی شرم سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ پاکستانی سیاست کا کرسی اور مراعات کا چسکا چونکہ لندن میں بھی بدرجہ اتم پایا جاتا ہے اس لئے بے روزگاری اور ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے والے بعض سینئر سٹیزن کارکنان جنہوں نے اپنی جوانی کے بیشتر سال محض اس لئے پاکستانی سیاست میں برباد کر دیئے کہ ایک روز وزیر بننے کا دیرینہ خواب بھی پورا ہو گا ہنوز ہاتھوں میں امیدوں کے چراغ لئے نظر آتے ہیں۔
اب جس روز سے وزیراعظم محمد شہبازشریف اور انکے ہمراہ آیا ان کا پارلیمانی وفد اپنے قائد محمد نوازشریف سے آئندہ مستقبل کے سیاسی لائحہ عمل کے بارے میں ہدایات لے کر لندن سے واپس گیا ہے‘ مسلم لیگ نون کے کارکنان مزید متحرک ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب عمران خان کو چاہنے والے کارکنان اور عام پاکستانیوں نے ای وی ایم اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کی دی گئی اجازت کو واپس لینے کے مبینہ فیصلہ کیخلاف اب بھرپور مظاہرے کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ لندن میں وزیراعظم شہبازشریف اور انکی کابینہ میں شامل افراد کے ہونیوالے متعدد اجلاسوں میں ایک بات تو اضح ہو گئی کہ پاکستان کو معاشی‘ اقتصادی اور سیاسی بحران ے نکالنے کیلئے واحد مسلم لیگ نون کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے قبل کولیشن جماعتوں کو اعتماد میں لے کر لائحہ عمل تیار کرنا ناگزیر ہے۔ انتخابات فوری ہونگے‘ اصلاحات کے بعد ہونگے یا وزیراعظم کی مدت پوری ہونے کے بعد ہونگے۔ میرے ذرائع کے مطابق مسلم لیگ نون کا بنیادی ایجنڈا قوم کا اعتماد بحال کرتے ہوئے عمران خان کے جاری جلسوں کی روشنی میں انتخابی مہم کے بارے میں غورخوض کرنا تھا۔ اسی طرح مسلم لیگ نون کے بعض رہنمائوں کی اس تجویز کو جس میں فوری الیکشن کروانا شامل تھا‘ قائد محمد نوازشریف سے توثیق حاصل کرنا تھی۔ بعض رہنما اس حق میں بھی تھے کہ دیگر اتحادی پارٹیوں کو ساتھ تو رکھا جائے مگر بنیادی فیصلہ مسلم لیگ کا ہی ہو۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم محمد شہبازشریف اور قائد محمد نواز شریف کی گئی گھنٹے ون ٹو ون ملاقاتیں بھی ہوئیں جن میں بعض حساس نوعیت کے امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ کہا یہی جا رہا ہے کہ وزیراعظم کے وفد میں شامل تمام معزز وزراء اپنے اخراجات خود برداشت کرکے لندن آئے۔ بعض اکانومی اور بعض نے بزنس کلاس میں سفر کیا۔ اسی طرح خواہش تھی کہ چرچل ہوٹل میں قیام کے بارے میں بھی سوال پوچھوں مگر ان سوالوں سے قبل بڑے بڑے وزراء تک رسائی کو یقینی بنانا آسان نہ تھا۔ اپنے میڈیا کے ، وزراء اور قائد لیگ محمد نوازشریف کے منظور نظر دوستوں کی مجبوریوں کا لحاظ بھی رکھنا تھا کہ میں یہ ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ کسی بڑے وزیر سے سوال تو کیا جائے مگر جواب وہ صرف مسکراہٹ تک محدود رکھے۔
وزیراعظم اور انکے وفد کے ارکان لندن میں ہی تھے کہ شہر اقبال میں عمران خان کے جلسے کے حوالے سے وہ کچھ ہو گیاجو ہرگز نہیں ہوناچاہیے تھا۔ اسے محض اتفاق کہہ لیں کہ سیالکوٹ کے جس گرائونڈ میں یہ جلسہ ہونا طے پایا تھا‘ کرسچن ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کا یہ وہی گرائونڈ تھا جہاں سکول کے زمانے میں میں نے باسکٹ بال کی تربیت حاصل کرنے کے بعد یہاں صوبائی اور قومی ٹورنامنٹ کھیلے وسیع وعریض اراضی پر پھیلے اسی سی ٹی آئی ہائی سکول میں جو امریکن مشن کے زیرانتظام ہے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی اور آنجہانی لال موتی لعل اور آنجہانی آر این مِل سے انگریزی کے مدارج طے کئے۔ سیالکوٹ میں یہ واحد مشن سکول ہے جو وسیع و عریض اراضی پر پھیلا ہوا ہے۔ بلاشبہ ضلعی انتظامیہ کی باضابطہ اجازت کے بعد یہاں جلسہ کرنے میں کوئی قدغن لگانا درست نہ تھا مگر اس مبینہ خبر نے کہ مسٹر جیکب کی درخواست پر ہائی کورٹ کے معزز جج جسٹس عابد عزیز شیخ نے ڈی سی کو قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے مسٹر جیکب کو ڈی سی سے رابطہ کرنے کی ہدایت جاری کیں جو پی ٹی آئی اور نون لیگ میں ٹھن جانے کاثبوت ہے اور یوں عثمان ڈار کو زخمی حالت میں یہ جگہ منتقل کرنا پڑی۔ اہل سیالکوٹ اب یہ بھی جاننا چاہ رہے ہیں کہ محترمہ مریم نواز صاحبہ نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کو شاباش کیوں دی؟ میرے ذرائع کے مطابق حسن صاحب منجھے ہوئے پولیس آفیسر ہیں‘ تھانہ مرادپور سے لے کر سیالکوٹ کے ہر تھانہ پر انکی نظر ہے۔ حیرانی ہوئی کہ پھر یہ سب کچھ کیسے ہو گیا۔ معاملہ مزید تحقیق کا متقاضی ہے۔ مجھے اپنے سیاسی رہنمائوں سے ہاتھ جوڑ کر پھر یہ استدعا کرنا ہے کہ ملک کے حالات انتہائی خطرناک صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ پہلے فیٹف اور آئی ایم ایف کا خوف سوار تھا اب ملک پر دیوالیہ پن کے خدشات منڈلا رہے ہیں۔ مت بھولیں کہ پاکستان کا حصول لاکھوں قربانیوں کے بعد ممکن ہوا تھا۔ سیاستیں ہوتی رہیں گی میرے منہ میںخاک‘ ملک ہی اگر ڈیفالٹ ہو گیا تو یہ وزارتیں اور عہدے کس کام کے؟