جمعرات ، 17 شوال 1443ھ‘ 19 مئی 2022ء
مارگلہ جنگلات میں آگ ٹک ٹاکروں نے لگائی
خدا غارت کرے اس ٹک ٹاک کو جس کی عادت بد میں مبتلا یہ ٹک ٹاکر ایسی ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اب اگر اس خاتون اور اس کے ساتھی ٹک ٹاکروں کو آگ لگا کر ویڈیو بنانے کا اتنا ہی شوق تھا تو بھئی یہ مارگلہ کیوں گئے آگ لگانے۔ آخر ان کے اپنے گھر بھی تو تھے۔ ہر اچھے کام کا آغاز اپنے آپ سے یا اپنے گھر سے کرنا چاہئے۔ انہیں چاہئے تھا کہ اپنے شوق کی خاطر گھر میں آگ لگاتے اور پھر آرام و اطمینان سے بیٹھ کر ٹک ٹاک بناتے۔ مزہ بھی آتا جب گھر والے چیخ و پکار کر رہے ہوتے اور یہ ناز و ادا دکھاتے ویڈیو بنا رہے ہوتے۔ کیا خوبصورت ساز و آواز کا موقع ملتا اس ویڈیو میں۔ لوگ عش عش کر اٹھتے۔ مگر ان ظالموں نے جنگل کو آگ لگا کر اپنا شوق پورا کیا۔ ایسے افراد کسی نرمی کے مستحق نہیں۔ پہلے ہی ہم بہت سے معاملات میں نرمی کا مظاہرہ کر کے کافی نقصان اٹھا چکے ہیں یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ اپنے شوق کی خاطر ہم ملک کا نقصان کرتے پھریں۔ ٹک ٹاک کی وبا نے نوجوانوں کو کچھ اس طرح اپنے چنگل میں پھنسایا ہے کہ وہ اچھے برے کی تمیز کھو چکے ہیں۔ انہیں اپنی جان تک کی پرواہ نہیں۔ ٹک ٹاکردوسروں کی پگڑیاں اچھالتے پھرتے ہیں۔ اس بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالنا ہو گی ورنہ کسی کی عزت محفوظ نہیں رہے گی اور آئے روز نت نئے حادثات سے دوچار ہونا پڑے گا۔
٭٭٭٭٭
سندھ میں میٹرک کے امتحانات، نقل کا سلسلہ عروج پر
سندھ میں اس وقت امتحانات کا موسم ہے جہاں نقل اسی زور و شور سے جاری ہے جس طرح محکمہ تعلیم والے نقل کے خلاف بیانات زور و شور سے جاری کرتے ہیں اور دعوے کرتے ہیں کہ ہم بوٹی مافیا اور نقل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے مگر ہر سال ہوتا وہی ہے جو بوٹی مافیا چاہتا ہے۔ یہ مافیا اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ اب اس پر ہاتھ ڈالنا ممکن ہی نہیں رہا۔ لڑکے ہوں یا لڑکیاں اب نقل میں ماہر ہو چکے ہیں۔ اوپر سے نقل کے نت نئے طریقے سامنے آ رہے ہیں۔ موبائل فون ، واکی ٹاکی اور نجانے کون کون سے جدید آلات سے کمرہ امتحان میں بیٹھا طالب علم باہر سے مدد کرنے والوں سے جڑا ہوتا ہے اور دل کھول کر نقل کرتا ہے۔ امتحانی سنٹرز بکے ہوتے ہیں۔ نگرانوں میں حوصلہ نہیں کہ وہ سختی کریں۔ پولیس بھی تماشائی بنی رہتی ہے۔ یوں سب کی خاموشی تعلیمی نظام پر ضرب کاری لگا رہی ہے۔ امتحانی مراکز میں کھلے عام ٹیسٹ پیپر، گائیڈ اور موبائل سے چیٹنگ ہو رہی ہے۔ پرچے شروع ہونے سے قبل ہی آئوٹ ہو رہے ہیں۔ یہ سب منظم طریقے سے ہو رہا ہے۔ اگر یہی حال رہا تو پھر اچھی اور اعلیٰ تعلیم کا تو خدا ہی حافظ ہو گا۔ حکومت سندھ ہر سال یہ سب ہوتا دیکھنے کے باوجود ایکشن نہیں لے رہی۔ نااہل نالائق طالب علم نقل کر کے پڑھنے لکھنے والے طلبہ کا حق مارتے ہیں۔ یہ سلسلہ کسی نہ کسی کو تو بند کرنا پڑے گا۔ ورنہ جو عمارت ریت سے تعمیر ہو وہ تیز ہوائوں یا پہلی بارش سے ہی ڈھے جاتی ہے۔ یہ نقل کرنے والے کیا خاک ملک کا نظام سنبھالیں گے۔
٭٭٭٭
لوٹے فارغ ہو چکے ہیں۔ پی ٹی آئی
یہی بات پوری تحریک انصاف والے کہہ رہے ہیں۔ مگر ان کی یہ خوشی فی الحال ادھوری ہے کیونکہ مرکز میں بنا کسی لوٹے کے وفاقی حکومت قائم ہوئی ہے۔ وہاں عدالتی فیصلے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ پنجاب اسمبلی میں جو 27 ووٹ ضائع ہو گئے ہیں۔ وہ بھی تحریک انصاف کے ہیں۔ یوں عملاً تو ان کے اپنے ارکان کی تعداد کم ہوئی ہے۔ بہرحال اب دیکھتے ہیں پنجاب اسمبلی میں کون اپنی اکثریت ثابت کرتا ہے مگر یہ بات تحریک انصاف والے جانتے ہیں کہ اب ایک بار پھر نئے انداز میں لوٹے اہمیت پائیں گے۔ ان کی عزت افزائی ہو گی انہیں گلے میں لٹکایا نہیں جائے گا بلکہ گلے سے لگایا جائے گا۔ عمران خان نے گزشتہ رات کوہاٹ کے جلسے میں پھر کہا کہ نہ وہ لوٹے خریدتے ہیں نہ انہیں قبول کرتے ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ خان صاحب نے خود اپنے ہاتھوں سے درجنوں لوٹوں کو شرف قبولیت بخشا انہیں تحریک انصاف میں قبول کیا اور سند کے طور پر انہیں پی ٹی آئی کے پرچم والا مفلر بھی پہنایا۔ اب حسب عادت وہ مکر جائیں تو کیا کہا جا سکتا ہے۔ آج بھی ان کی بغل میں بے شمار مقدس لوٹے کھلاڑی بنے بیٹھے ہیں۔ وہ لاہور آئے ہیں تو یہاں بھی وہ کوشش میں ہیں کہ اس نازک مرحلے میںنیک صفت پاکیزہ لوٹوں کو تحریکی گنگا میں ڈبکی لگا کر گلے سے لگائیں تاکہ ان کو دوبارہ پنجاب کا راج سنگھاسن یعنی تخت لاہور حاصل ہو۔ حیرت کی بات ہے ایسا دوسرے کریں تو غلط خود خان کریں تو درست ہے۔
٭٭٭٭٭
بھارت میں مردہ قرار دی گئی نومولود بچی زندہ ہو گئی
ایسی کرامات کا ظہور ہمارے ہاں بھی ہوتا رہتا ہے۔ ان کرامتوں میں سب سے بڑا ہاتھ نااہل ڈاکٹروں یا نیم حکیم خطرہ جان عطائیوں کا بھی ہوتا ہے جو مکمل تسلی کئے بنا اور تصدیق کئے بغیر ہی کسی کومے میں چلے جانے والے مریض کو مردہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔ پھر جب وہ مریض اشنان یا غسل دیتے وقت تابوت یا جنازہ لے جاتے وقت دوبارہ ہوش میں آتا ہے تو یہ خبر اخبارات میں میڈیا میں شہ سرخی کے ساتھ شائع ہوتی ہے کہ مردہ زندہ ہو گیا۔ یہی کچھ گزشتہ روز کرناٹک کے علاقہ رنچور میں پیش آیا جب ڈاکٹروں کی طرف سے مردہ قرار دی گئی بچی کو آخری رسومات ادا کرتے وقت سانس لیتا دیکھ کر سب حیران ہو گئے۔ شکر ہے صرف حیران ہی ہوئے ورنہ توہمات کے مارے دیہاتی تو دیہاتی، شہری بھی اس موقع پر ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں اور بھوت بھوت کا شور مچانے لگتے ہیں۔ کئی کمزور دل خواتین و حضرات موقع پر ہی بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ اب خدا جانے ا س بچی کے گھر والوں نے اطمینان کا سانس لیا ہو گا یا انہیں افسوس ہوا ہو گا کیونکہ بھارت میں آج بھی لڑکی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ ہر سال لاکھوں بچیاں ماں کی کوکھ میں ہی پیدائش سے قبل مار دی جاتی ہیں۔ وہاں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ بچی کی پیدائش پر یا زندہ بچ جانے پر ا س کے گھر والے خوش ہوئے ہوں۔