ہر جان کو موت چکھنی ہے۔لن تنالوا(آل عمران)185
تم فرماؤ بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو رب ہے سارے جہان کا۔ولواننا(الانعام)162
اور تمہیں زمین میں ایک وقت تک ٹھہرنا اور برتنا ہے۔ولواننا(الاعراف)24
مال اور بیٹے یہ جیتی دنیا کا سنگار ہے۔سبحن الذی(الکھف) 46
پھر ہم نے اس پانی کی بوند کو خون کی پھٹک کیا پھر خون کی پھٹک کو گوشت کی بوٹی پھر گوشت کی بوٹی کو ہڈیاں، پھر ان ہڈیوں کو گوشت پہنایا پھر اسے اور صورت میں اٹھان دی، تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنانے والا۔پھر اس کے بعد تم ضرور مرنے والے ہو۔پھر تم سب قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔قد افلح(المؤمنون) 14 تا 16
ان آیات سے ہمیں زندگی کا فلسفہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش اسکی زندگی، موت اور کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کے حوالے سے معاملات واضح اور تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے ہیں۔ انسان نے واپس اللہ کے پاس جانا ہے، اعمال کا جواب دینا ہے، روز محشر کسی کی ذرہ برابر چیز بھی پوشیدہ نہیں رکھی جائے گی اور نہ ہی اس دن کسی جان پر ظلم ہو گا یہ سب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے۔ روز محشر ہمارے اعضاء ہی گواہی دیں گے کہ ہم کیا کرتے رہے ہیں۔ موت اٹل حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ اللہ ہی زندگی اور موت کا مالک ہے ہم سب نے لوٹ کر خالق کائنات کے پاس جانا ہے۔ کوئی پہلے آتا ہے بعد میں جاتا ہے کوئی بعد میں آتا ہے پہلے جاتا ہے۔ قمر زمان کائرہ کے جوان بیٹے اسامہ بھی بعد میں آئے لیکن پہلے واپس چلے گئے۔ اللہ ان کے درجات کو بلند فرمائے، ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔
قمر زمان کائرہ کے جوان بیٹے کا انتقال یقیناً اس خاندان کے لیے بڑا سانحہ ہے۔ یہ ہمیشہ رہنے والی تکلیف، دکھ اور کمی ہے۔ کائرہ صاحب بلند ہمت شخصیت ہیں انہوں نے بہت سے مسائل اور تکالیف کا سامنا کیا ہے، بہت سے معاملات میں سرخرو ہوئے لیکن اس جواں موت کا دکھ انہیں ہمیشہ رہے گا اور اس تکلیف سے نکلنا شاید انکے لیے آسان نہ ہو۔ ان کا بیٹا اللہ کی امانت تھی واپس لوٹا دی گئی ہے۔ ہم کائرہ صاحب ان کے اہلخانہ، عزیز و اقارب اور ان تمام والدین سے جو اس انتقال کا دکھ محسوس کر رہے ہیں سب سے تعزیت کرتے ہیں۔ کسی کے الفاظ جواں اسامہ کو واپس نہیں لا سکتے، کسی کا دلاسہ قمر زمان کائرہ کے دکھ کو کم نہیں کر سکتا، کسی کا سہارا اسامہ کا متبادل نہیں بن سکتا، کسی کی مسکراہٹ اسامہ کا متبادل نہیں ہو سکتی، قمر زمان کائرہ کا دل بیٹے کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ یہ دکھ وہ باپ ہی جانتا ہے جو اس تکلیف گذرا ہو۔ قمر زمان کے دوست کا بیٹا بھی انکا اپنا ہی تھا انکے والدین بھی اسی دکھ اور تکلیف سے گذر رہے ہیں جس کا سامنا پیپلز پارٹی کے قد آور رہنما کو ہے۔ موٹ اٹل حقیقت ہے، آج اسامہ گئے ہیں، کل کوئی اور پھر کوئی اور سب اپنے اپنے مقررہ وقت پر نہ ختم ہونے والے سفر پر چلے جاتے ہیں۔ موت ایک حقیقت ہے اور موت ایک سبق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب نے جانا ہے، سبق یہ ہے کہ ہم نے کیا تیاری کی ہے، ہمارا ہر بڑھتا قدم موت کی طرف اور گذرتا سانس ہمیں زندگی کے خاتمے کی طرف لیکر جاتا ہے۔ کوئی بادشاہ ہے یا غلام، کوئی مل مالک ہے یا ملازم، کوئی چنگ چی کا ڈرائیور ہے یا ہوائی جہاز کا پائلٹ، کوئی طاقتور ہے یا کمزور سب نے خالی ہاتھ جانا ہے، کوئی شان و شوکت، جاہ و جلال، دنیاوی عظمت، بڑا مرتبہ، عہدہ، تعلقات کسی کام نہیں آئیں گے، سب کو ایک چارپائی اسے اٹھانے والے زندہ لوگوں اور قبر کے لیے تھوڑی سی جگہ کی ضرورت پیش آنی ہے۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ قبر نصیب ہو گی یا نہیں، ہم کسی سمندری طوفان کی نذر ہو جائیں، کسی دہشت گردی کے واقعے کی نذر ہو جائیں، ہمارا ہوائی جہاز تباہ ہو جائے یا کسی اور حادثے کا شکار ہو جائیں تو قبر سے بھی محروم رہیں گے۔ پھر ہم اتراتے کس بات پر ہیں، اکڑتے کس بنیاد پر ہیں، انسانوں کو جھکنے پر مجبور کیوں کرتے ہیں، طاقت اور اختیار کا غلط استعمال کیوں کرتے ہیں۔ کیا ہم بھول جاتے ہیں کہ سب نوٹ ہو رہا ہے اللہ ذرہ بھر چیز کو بھی ہمارے سامنے پیش کر دیں گے اور ہمارے جسمانی اعضاء بھی گواہی دیں گے۔ پھر ہم کیوں حدود سے تجاوز کرتے ہیں، کیوں فساد پھیلاتے ہیں، کیوں انسانوں کو تنگ کرتے ہیں، کیوں ظلم کرتے ہیں یا ظلم کا ساتھ دیتے ہیں، ہم کیوں مال و دولت جمع کرنے کے لیے ناجائز ذرائع استعمال کرتے ہیں، کیوں ناجائز منافع خوری کرتے ہیں، کیوں ناجائز منافع خوروں کی پشت پناہی کرتے ہیں، کیوں ناانصافی کرتے ہیں، کیوں حق کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں، جب قرآن نے بتا دیا ہے کہ سب لکھا جا رہا ہے اور سب پیش ہو گا پھر ہم دھوکہ کس کو دے رہے ہیں۔ اپنے آپکو اپنے اہلخانہ کو، اپنے عزیز و اقارب کو اپنے دوستوں کو، ہم کیوں دھوکے کی زندگی میں مصروف ہیں، ہم کیوں اپنی بنیاد پر واپس نہیں آتے، اس سارے عمل میں حکمران طبقے کی ذمہ داری زیادہ ہے، کیا حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جوابدہ نہیں ہونگے، وہ یہ جان لیں انہیں جواب سختی سے دینا ہو گا ان سے تو عوام کے بارے میں پوچھا جائے گا، وہ اپنے اقدامات کے جواب دہ ہونگے۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی طاقت کی سیاست کا حصہ رہیں گے اور بے رحمی کریں گے تو یاد رکھیں نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ
من لا یرحم لا یرحم
جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
اب ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ کون سا راستہ اختیار کرنا ہے دھوکہ دہی کی طرف جانا ہے یا قرآن کریم کی تعلیم کی طرف آنا ہے، نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہونا ہے، اللہ کے احکامات پر عمل کرنا ہے یا پھر طاقت ہے نشے میں رہ کر سب کو تکلیف میں مبتلا کرنا ہے۔ ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں آخرت کے لیے اچھا سامان کرنا ہے یا آگ کا بندوبست کرنا ہے۔ ایسی اموات میں سب سے زیادہ سبق طاقتور، مالدار، سرمایہ کار اور حکمران طبقے کے لیے ہے۔ ان کے لیے بہتر ہے کہ حدود میں رہیں، اپنی جیبیں بھرنے کے بجائے عوام کی جیبیں بھرنے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کریں۔ حکمران اس حادثاتی موت سے سبق سیکھیں اور اپنے لیے اصلاحی پہلو نکالیں۔
قمر زمان کائرہ ہمارے لیے بہت محترم ہیں۔ انکی عزت کی بڑی وجہ مضبوط کردار ہے۔ اس پرفطن دور میں بھی ان کے ہاتھ صاف نظر آتے ہیں یہی ان کا سب سے بڑا کریڈٹ ہے۔ ان کا دکھ اور تکلیف کوئی کم نہیں کر سکتا لیکن ہم انکی دلجوئی ضرور کر سکتے ہیں اور ہم سب کائرہ صاحب کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے کائرہ صاحب کی دلجوئی کر کے اچھا اقدام کیا ہے۔
ہمیں اپنے نوجوان کی بہتر تعلیم و تربیت پر زور دینے کی ضرورت ہے، ہمیں انہیں تحمل مزاجی کا درس دینے کی ضرورت ہے۔ ہم نے نوجوان نسل کو محبت کا درس دینا ہے۔ کائرہ صاحب کے بیٹے کے انتقال سے ملک میں امن، تحمل مزاجی، برداشت، ایمانداری، سچ اور حق کا سفر شروع ہوا تو اسکا کریڈٹ اسامہ قمر کو اور قمر زمان کائرہ کو جائے۔ رب العزت نوجوان کے درجات کو بلند فرمائے۔ ہمیں آخرت کو سنوارنے کے لیے دنیا میں نیک اعمال کرنے اور اپنی مخلوق کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے، خالق کائنات ہمیں ناجائز منافع خوری، طاقت کے غلط استعمال اور ناانصافی سے محفوظ فرمائے۔ آمین
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024