حکومت آنیوالے بجٹ میں عوام کو بڑا ریلیف دیکر خود کو مشکلات سے نکال سکتی ہے
ڈالر کے اونچی اڑان کے تسلسل میں اوگرا کا چھوٹے صارفین کیلئے گیس 188 فیصد مہنگی ہونے کا عندیہ
روپے کی بے قدری اور ڈالر کی اونچی اڑان کا سلسلہ جاری ہے جبکہ اوگرا نے مالی سال 2019-2020 کیلئے مختلف کیٹیگریز کے چھوٹے صارفین کیلئے گیس 188 فیصد تک مہنگی کرنے کی سفارش کر دی ہے تاہم گیس کے نرخوں میں اضافہ حکومت کی طرف سے منظوری ملنے کے بعد کیا جائیگا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دو روز کے دوران ڈالر چار عشاریہ 6 فیصد مہنگا ہوا ہے۔ گزشتہ روز ڈالر انٹربنک مارکیٹ میں 149 روپے تک اور اوپن مارکیٹ میں 151 روپے تک فروخت ہوا۔ اس طرح گزشتہ روز ڈالر کے نرخ میں چار روپے کا اضافہ ہوا۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے تین روز قبل ڈالر کی قیمت دو روپے بڑھنے کا نوٹس لیتے ہوئے ڈالر مہنگا بیچنے والی سٹاک کمپنیوں کیخلاف کارروائی کی ہدایت کی گئی تھی تاہم وزیراعظم کی اس ہدایت کے بعد انٹربنک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر مزید چار روپے مہنگا ہوگیا اور وفاقی وزیر ریونیو حماداظہر نے ڈالر مہنگا ہونے کا الزام سٹیٹ بنک پر دھر دیا۔ ڈالر کے جستیں بھرنے کے اس عمل میں دو روز کے دوران پاکستان کے بیرونی قرضوں میں مزید کوئی قرضہ لئے بغیر 1687‘ ارب روپے کا اضافہ ہوگیا۔ معاشی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف سے معاہدہ کی سخت شرائط کے باعث ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ روپے کی قدر مزید کم ہونے اور ملک میں مہنگائی کے نئے طوفان اٹھنے کا امکان ہے۔
پاکستانی روپے کی بے قدری کا اندازہ امریکی ٹی وی بلومبرگ کی اس رپورٹ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں پاکستانی روپے کو ایشیا کی بدترین کرنسی قرار دے کر بتایا گیا ہے کہ پاکستانی کرنسی افغانستان‘ بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی پیچھے رہ گئی ہے۔ یہ رپورٹ پاکستانی کرنسی کی گزشتہ آٹھ ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے مرتب کی گئی ہے جس کے مطابق ایک ڈالر میں افغانستان کے 79 روپے ملتے ہیں جبکہ بھارت میں ایک ڈالر کے 70 روپے اور بنگلہ دیش میں ایک ڈالر کے عوض 84 ٹکے ملتے ہیں۔ اسی طرح نیپال میں ایک ڈالر 112 روپے کا اور بھوٹان میں ایک ڈالر 69 گلٹرم میں فروخت ہورہا ہے جبکہ تھائی لینڈ میں ایک ڈالر 32 بھات میں دستیاب ہے۔ اس حساب سے ایک سال میں پاکستان کا کرنسی کے معاملہ میں بدترین مارکیٹوں میں شمار ہونے لگا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مئی 2018ء کے انتخابات کے بعد جب تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت ڈالر 124 روپے پچاس پیسے کا تھا جو آج 152 روپے تک پہنچ گیا ہے۔
ڈالر کے جستیں بھرنے کے اس عمل سے بھی یقینی طور پر مہنگائی کے طوفان اٹھنے تھے مگر حکومت نے پاکستانی روپے کی بے قدری روکنے کے اقدامات اٹھانے کے بجائے پٹرولیم مصنوعات اور ادویات کے نرخوں میں بھی بتدریج اضافہ کرکے اور پھر دو ضمنی میزانیوں کے ذریعے بعض مروجہ ٹیکسوں میں اضافہ کرکے اور بعض نئے ٹیکس عائد کرکے مہنگائی کے عفریت کو مزید موٹا تازہ کردیا جس کے آگے راندۂ درگاہ عوام بے بسی کی تصویر بن گئے‘ انکی قوت خرید جواب دے گئی اور ان کیلئے جسم کے ساتھ تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنا بھی عملاً مشکل ہوگیا۔ ڈالر کے نرخوں میں اضافہ یقینًا درآمدی اشیاء کو بھی متاثر کرتا ہے اس لئے ڈالر کے نرخوں کی بلند پروازی سے وفاقی اور صوبائی میزانیوں سے پہلے ہی روزمرہ استعمال کی درآمدی اشیاء کے نرخ بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر نکلنے لگے۔ عوام کو مہنگائی کے جھٹکے لگنے کے اس عمل کے دوران ہی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آئوٹ پیکیج کیلئے سلسلۂ جنبانی شروع کیا تو آئی ایم ایف کی ممکنہ شرائط سے مہنگائی کے نئے طوفان کا تصور کرکے ہی عوام کی چیخیں نکلنے لگیں۔ بے شک سابق وزیر خزانہ اسدعمر قوم کو یہ باور کراتے رہے کہ آئی ایم ایف سے پیکیج اسکی شرائط پر نہیں بلکہ اپنی شرائط پر لیا جائیگا جس کا عام آدمی پر بوجھ نہیں پڑنے دیا جائیگا تاہم اسدعمر کے وزارت خزانہ سے فارغ ہونے کے بعد آئی ایم ایف کے حوالے سے انکے دعوے بھی فضا میں تحلیل ہو گئے اور پھر نئے تعینات ہونیوالے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے جس سرعت کے ساتھ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کئے اور وزیراعظم عمران خان کی آئی ایم ایف سے شرائط نرم کرانے کی ہدایات کے باوجود جس مؤدبانہ انداز میں آئی ایم ایف کی ہر شرط کو سرتسلیم خم کرکے قبول کیا اور پھر آئی ایم ایف کی ان شرائط سمیت قوم کو اسکے ساتھ چھ ارب ڈالر کے قرض کا معاہدہ طے پاجانے کی نوید سنا دی‘ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی کس حد تک مجبوری لاحق ہوچکی تھی۔
یہ یقیناً آئی ایم ایف کے قرضوں اور روپے کی قدر میں کمی پر پی ٹی آئی قیادتوں بطور خاص وزیراعظم عمران کے ان بیانات کو یاد دلانے کا وقت نہیں ہے جن میں وہ سابق حکمرانوں کے لتے لیتے اور اپنے دوراقتدار میں ایسے اقدامات نہ اٹھانے کے دعوے کرتے رہے تاہم آج جبکہ پی ٹی آئی حکومت نے سابقہ حکمرانوں کو مطعون کرنیوالا ہر وہ قدم خود بھی اٹھا لیا ہے اس لئے اب ایسے اقدامات کا سابقہ حکمرانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرانے کا بادی النظر میں کوئی جواز نہیں رہتا اور عوام ان سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ انہوں نے اپنے اقتدار کے دس ماہ میں قومی معیشت کو بدحالی سے نکالنے کے ایسے کون سے اقدامات اٹھائے ہیں جن سے عوام کو بھی کسی قسم کا فائدہ ہوا ہو۔ اگر پی ٹی آئی حکومت کے اقتصادی اصلاحات سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات سے مہنگائی کا جن مزید شتربے مہار ہوا ہے‘ روپیہ ٹکے ٹوکری ہوگیا ہے اور عوام عملاً زندہ درگور ہوگئے ہیں تو اس سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے اپوزیشن کے دور میں اس وقت کی حکومت کے ساتھ بلیم گیم کھیلنے کے سوا ایسا کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا جس سے سابقہ حکمرانوں کی کرپشنوں سے پیدا ہونیوالے مسائل سے اپنے دور اقتدار میں قوم کو چھٹکارا دلانے کی کوئی ٹھوس حکمت عملی طے کی جاسکتی۔ چنانچہ عوام کو پی ٹی آئی کے اقتدار کے آغاز ہی میں نہ صرف یوٹیلٹی بلوں اور روزمرہ اشیاء کے نرخوں میں آئے روز کے اضافہ کے جھٹکے لگنا شروع ہوگئے بلکہ انکے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل پہلے سے بھی گھمبیر ہوگئے۔ اس پر مستزاد یہ کہ حکومتی اکابرین کی جانب سے تسلسل کے ساتھ مہنگائی مزید بڑھنے کی ’’نوید‘‘ بھی سنائی جانے لگی اور یہ باور کرایا جانے لگا کہ انہیں مزید آٹھ دس ماہ تک اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔
جب مہنگائی کا باعث بننے والے حکومتی اقدامات سے عوام میں مایوسی اور اضطراب پھیل رہا ہو اور حکمران انہیں کسی قسم کا ریلیف دینے کے بجائے مہنگائی مزید بڑھنے کے کچوکے لگارہے ہوں تو یہ صورتحال عوام کو ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کا راستہ دکھانے کے ہی مترادف ہے۔ چنانچہ آج عوام عملاً آمادہ جنگ نظر آرہے ہیں اور وہ اپنے مستقبل کیلئے امید کی کوئی کرن نہ پا کر مایوسی‘ غصے اور اضطراب میں طوفان اٹھانے کا کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ یہی وہ فضا ہے جس کے تناظر میں مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں قوم کو خونیں انقلاب کے بڑھتے خطرات سے ڈرایا کرتے تھے۔ وہ تو خونیں انقلاب کی صرف بات کرتے تھے جو کسی صاحب اقتدار کو ہرگز زیب نہیں دیتا مگر موجودہ حکومت نے تو اپنے اقدامات سے بے بس و مجبور عوام کو خونیں انقلاب کا راستہ بھی دکھا دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومتی اور تنظیمی قیادتوں کو بہرصورت اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ خونیں انقلاب کس کیلئے آتا ہے اور اسکے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں اس لئے انہیں مہنگائی کے مارے اور اپنے گوناںگوں روزمرہ کے مسائل میں گھرے عوام کو مطمئن کرنے اور ریلیف دینے کے فوری اور مؤثر اقدامات اٹھانا ہونگے تاکہ وہ مایوسی اور اضطراب کی کیفیت سے باہر نکل سکیں۔ اس کیلئے حکومت کے پاس بہترین موقع اس ماہ پیش کئے جانیوالے وفاقی اور صوبائی میزانیے ہیں۔ حکومت کوشش کرے کہ ان میزانیوں میں عوام کو سہولتوں اور ٹیکسوں میں رعایت کے بڑے پیکیج دیکر انہیں مطمئن کرے اور اسکے ساتھ ساتھ صحت‘ تعلیم اور روزگار کے بڑھتے مسائل حل کرنے کیلئے بھی عوام کے اطمینان کا باعث بننے والے اقدامات اٹھانا شروع کردے۔ اگر وفاقی اور صوبائی میزانیوں کی بنیاد پر اپنے روٹی روزگار کے مسائل کے حوالے سے عوام کی مایوسیوں میں مزید اضافہ ہوگیا تو پھر یقیناً پی ٹی آئی حکومت کی مشکلات میں بھی مزید اضافہ ہوگا جس سے اپوزیشن کو حکومت پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا بھی نادر موقع مل جائیگا جس کیلئے وہ پہلے ہی صف بندی کرچکی ہے۔