اتوار‘ 13 ؍ رمضان المبارک ‘ 1440ھ‘ 19؍مئی 2019ء
پڈ عیدن میں مال گاڑی کی 13 بوگیاں الٹ گئیں
اب اس پہ شیخ رشید کیا گل افشانی کریں گے۔ جو ہر غلط کام دوسروں پہ ڈالنے کے عادی ہیں۔ اتفاقاً کوئی کام اچھا ہو جائے تو اسکی پگڑی اپنے سر باندھتے ہیں۔ اپنی وزارت ان سے سنبھالی نہیں جاتی۔ پوری اسمبلی میں اپنی جماعت کے اکلوتے ممبر ہیں۔ مگر اندھوں میں کانا راجہ بنے ہوئے ہیں۔ جب سے ریلوے کی وزارت سنبھالی ہے۔ پے در پے حادثات ان کے سبز قدم ہونے کی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ نئی گاڑیاں چلانے کا خواب دکھانے والوں سے پرانی گاڑیاں سنبھالی نہیں جا رہی ہیں۔ اب بھی وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ حادثہ بھی میاںنواز اور آصف زرداری کی وجہ سے پیش آیا ہے۔ جیسا کہ ڈالر کی اڑان پر کہہ رہے ہیں کہ یہ مہنگا نوازشریف اور آصف زرداری کی وجہ سے ہوا ہے۔ اسے کہتے ہیں طوطے کی بلا بندر کے سر۔ اب انہیں کون یاد دلائے۔ اگر دلائے تو انہوں نے کون سا اس پر عمل کرنا ہے۔ وہ جس حکومت کا حصّہ ہیں وہ بھی تو تمام دعوئوں اور وعدوں کو فراموش کر کے یوٹرن لینے کو حکمت قرار دیتی ہے۔ اسلئے یورپ کی طرح کسی سانحہ پر یا حادثے پر ہمارے وزرا استعفے نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک ایسے واقعات کے ذمہ دار وہ نہیں ہوتے۔ یہ سب کچھ اوپر والے کی مرضی سے ہوتا ہے۔ سو اب شیخ جی کو کیا پڑی کے وہ استعفے دیں۔ یہ جو وہ سابقہ حکومت کے وزیروں کو کسی حادثے سانحہ پر جو استعفی دینے کی دہائی دیتے تھے۔ وہ ان کے لئے تھی اپنے لیے کوئی بھلا ایسی باتیں کون کرتا ہے۔ اب تحقیقاتی کمیٹی بنے گی۔ یعنی معاملہ کھوہ کھاتے ڈال دیا جائے گا۔ ہمارے ہاں تحقیقاتی کمیٹی کا تو مطلب بھی یہی ہے کہ مٹی پائو۔
٭…٭…٭
کراچی فشری ہاربر پر سمندر کوڑا کرکٹ سے اٹ گیا
سمندری آلودگی کے خاتمے کیلئے عالمی سطح پر زبردست مہم چلائی جا رہی ہے۔ سمندروں کو صاف رکھنے۔ اس کی آبی حیات کے تحفظ کے لئے یہ بہت ضروری بھی ہے۔ اس کے باوجود سمندوں میں سالانہ لاکھوں ٹن کچرا پھینکا جا رہا ہے۔ سمندری جہازوں کی وجہ سے تیل اور دیگر آلودگی بھی سمندر کو گندا کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ سمندر کے کنارے رہنے والے اور تفریح کے لئے آنے والے بھی سمندر کو کچرا کنڈی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ کراچی میں فشری ہاربر کی جو تصویر اخبار میں شائع ہوتی ہے اسے دیکھ کر تو یوں لگتا ہے جسے یہ کراچی کے کسی بڑے گندے نالے کی تصویر ہے جس کو کچرے نے اسے اس طرح ڈھانپا ہوا ہے کہ اب پر لوگ چل پھر بھی سکتے ہیں اور تجاوزات بھی قائم کر سکتے ہیں۔ فشری ہاربر پر کچرے کے اس دلدل پر لنگر انداز کشتیوں کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ کراچی کا ساحل سمندر کس حالت میں ہیں۔ حکومت سندھ کو شہروں اور دیہات کو صاف کرنے کی صلاحیت نہیں وہ بھلا ساحل سمندر کو کچرے سے پاک کیسے کر سکتی ہے۔ کوئی نجی ادارہ ہی اس طرف توجہ دے اور سمندری صفائی کو مہم چلا کر اچی کے سمندر کو کچریسے پاک کر دے تو یہ بہت بڑا کام ہو گا۔ کیا ’’فکس اٹ‘‘ والے میں سمندری کچرے پر اس کوتاہی کے ذمہ دار محکمہ کے وزیر کی تصویر لگا کر انہیں غفلت سے بیدار نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح گٹروں کے ڈھکن پر کیا تھا۔
٭…٭…٭
بلاول زرداری کی افطار پارٹی میں حکومت مخالف تمام جماعتیں شریک ہونگی
آج پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کی طرف سے اسلام آباد میں حکومت مخالف تمام سیاسی جماعتوں کو افطار پارٹی دی جا رہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی والوں کو اب حکومت کی طرف سے کسی بھی رعایت یا خیر کی امید نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ آصف زرداری کافی دنوں سے اپوزیشن والوں سے دل کھول کر جپھیاں ڈال رہے تھے۔ اب ظاہر ہے اس افطار پارٹی میں اپوزیشن جماعتوں کے دل جلے رہنما بھی شریک ہوں گے اور خوب حکومت کیخلاف بولیں گے۔ اس سیاسی افطار پارٹی میں مولانا فضل الرحمن جو پہلے دن سے ہی حکومت کو واپس گھر بھیجوانے کا عزم مصم کئے ہوئے ہیں۔ اب اپنی گرمی گفتار سے پانسہ پلٹ سکتے ہیں اور نرم رویہ رکھنے والے بھی بے تیغ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مریم نواز صاحب، اسفندیارولی بھی سوتوں کو جگانے پر تیار ہو گئے ہیں۔ محمود خان اچکزئی بھی ہوں گے۔ البتہ سراج الحق کا معلوم نہیں کہ وہ آتے ہیں یانہیں۔ ویسے انہوں نے بھی عید کے بعد مہنگائی یہ امنی اور بیروزگاری کیخلاف تحریک چلانے کا علیحدہ اعلان کر رکھا ہے۔ اب دیکھنا ہے وہ بڑی بڑی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر کھیلتے ہیں یا اپنی الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناتے ہیں۔ لگتا ہے حکومت کے لئے رمضان کے بعد شوال کا مہینہ اثرات کے لحاظ سے کافی گراں (بھاری) ثابت ہو سکتا ہے۔ دیکھتے ہیں اب خان صاحب صدقے کے طور پر کس کس وزیر کی چھٹی کرا کہ حکومت بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
٭…٭…٭
نئے بلدیاتی نظام میں صوبائی حکومت اور بلدیاتی سربراہوں میں کشمکش رہے گی
بلدیاتی نظام کا بنیادی مقصد عوام کے چھوٹے موٹے مسائل ان کی دھلیز پر ہی حل کرنا ہوتا ہے۔ بلدیاتی ممبر یا کونسلر اپنے علاقے میں رہتے ہوئے ان لوگوں کے مسائل زیادہ واقف ہوتا ہے۔ یہ ایوب خان دور کا اچھا نظام تھا۔ بعد میں ضیاالحق کے دور میں جب سیاست شجر ممنوعہ تھی۔ بلدیاتی کونسلروں کی گڈی چڑھی۔ بڑے بڑے سیاستدان ایم پی اے ایم این اے بھی اپنے علاقوں میں چھوٹے موٹے کام کرانے کے لئے ان کے محتاج بن گئے۔ تو انہیں بلدیاتی ممبران کی طاقت کا اندازہ ہوگیا۔ اس طرح وزیر بننے کی بجائے سیاستدان مودی ممبر بننے کو ترجیح دینے لگے اور بلدیاتی نظام کچھ زیادہ ہی جڑ پکڑنے لگا تو سابقہ حکومت نے اپنے دور میں اس کے انعقاد کو کافی عرصہ معطل بھی رکھا تا کہ سیاستدان زیادہ دلبرداشتہ نہ ہو جائے۔ہمارے ایم این اے اور ایم پی اے کو قانون سازی یا ملک چلانے سے کیا دلچسپی۔ وہ بے چار نالی اور سڑک بنانے بجلی گیس کے کنکشن اور پانی کانلکا لگوانے سے آگے کی سوچ ہی نہیں رکھتے وہ یہ اور تھانے کچری کے معاملات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں اب حکومت نئے بلدیاتی نظام میں یہ کام نہایت مہارت سے ناظمین سے چھین کر صوبائی حکومتوں اور من پسند ناظموں کے حوالے کر دیا ہے۔ ناظم کا براہ راست انتخاب اس کھیل کا ایک دائو ہے۔ زیادہ اختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہو نگے تو کونسلروں کو بھی فنڈز کے استعمال اور عوام کے مسائل حل کرنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔ سو اب بلدیاتی اداروں اور صوبائی حکومتوں میں خوب ٹھنی رہے گی۔