قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصربڑے فخرو انبساط کے ساتھ کہہ رہے تھے، ’’ارکان ِاسمبلی نے 26ویں آئینی ترمیم متفقہ طور پر منظور کر لی ہے ۔ قوم کو یہ کارنامہ اور خو ش خبری مبارک ہو‘‘جی ہاں! اسی اسمبلی ہال میں جہاں ایک روز قبل حکومت اور اپوزیشن کے بعض جوشیلے بھڑ کیلے اور منہ زور ارکان اپنے اپنے ایجنڈے پر ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا زہر اُگل رہے تھے ۔ (یہ سلسلہ پچھلے کئی ہفتوں سے جاری ہے)وہیں پر 26ویں آئینی ترمیم کے لیئے یوں شیر و شکر ہو گئے کہ حیرت ہوتی تھی ۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی ارکان ِاسمبلی ہیں جو آپس میں دست و گریباں ہونے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے اور ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہہ کر سکون محسوس کر تے تھے آج وہ یوں ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے کہ ُان کی دوستی اور مفاہمت پر یقین نہیں آرہا تھا۔ ہمارے ہاں سیاست اور پارلیمنٹ میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے ، ذلیل کرنے اور نفرت کے ِاظہار کی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ دوستی اور مفاہمت حیران کُن ہی لگے گی ، آٹے میں نمک برابر یہ صورت حال ہی سہی، لیکن غنیمت ہے نمک پر دوستی اور مفاہمت کی پالیسی شاذونادرہی دیکھنے میں آتی ہے ۔ جیسے 26ویںآئینی ترمیم منظور کرنا ہو۔ ارکان ِپارلیمنٹ نے اپنی تنخواہیں مراعات اور دیگر سہولتوں کی منظور ی دینا ہو یا اسی نوعیت کا کوئی دوسرا معاملہ ہو، ارکان ایک دوسرے پر قربان ہوتے چلے جاتے ہیں۔
میری طرح کروڑوں سفید پوش عوام کو حسرت ہے کہ کبھی یہ ارکان عوام کو مہنگائی سے بچانے ، ٹیکسوں کے بوجھ سے نجات دلانے اور اربوں کھربوںکی کرپشن سے بچانے کے لئے بھی اسی طرح شِیر و شکر ہوں دوستی اور مفاہمت کا ثبوت دے کر صیحح معنوں میں عوام دوست ہونے کا ثبوت دیں۔ جب سے اسمبلیاں وجود میں آئی ہیں تب سے عوام یہ خواب ہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں ۔ دراصل سیاست میں یار لوگوں نے اپنے مفادات ہی کو سب کچھ اہم قرار دے رکھا ہے اقتدار کے لئے ہر کام کرنے کو تیار رہتے ہیں ۔ عوام کے غم میں ڈنر کھا کر شرم محسوس نہیں کرتے اور نہ ہی جھوٹے وعدے کرتے ہوئے کچھ سوچتے ہیں کیونکہ یہ اقتدار کی دیوی کی زُلفوں کے کچھ اس طرح اسیر ہوتے ہیں کہ عوام کی التجائیں ، سسکیاں اور چیخیں اُن پر اثر انداز نہیں ہوتی ہیں۔ ایسے ہی حالات کے حوالے سے میر تقی میر نے کیا خوب کہا تھا۔
؎ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے
سب اسی کے زلف کے اسیر ہوئے
۔جب یہ فرما دیا گیاکہ آنے والا ہر دور گزرے ہوئے دور سے خراب اور بدتر ہو گا تو پھر کیا بحث کی جا سکتی ہے پھر ہمارے اپنے اعمال کا مسئلہ بھی تو ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے حکمران مسلط کر دیتا ہے جو عوام کے خیر خواہ اور ہمدرد ہو ہی نہیں سکتے ۔ ان سب باتوں کو سمجھتے ہوئے بھی اپنے سیاستدانوں اور حکمرانوں سے توقعات وابستہ رکھتے ہیں۔ہم سادہ لوح اور اپنے حالات کے مارے ہوئے لوگ بار بار اپنی وعدہ فراموشی ، بے حِسی اور مفاد پرست اشرافیہ کے دروازے اور دربار پر حاضری دیتے ہیں ۔ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ تبدیل ہوتے ہوئے ماحول میں عوام مہنگائی بے روزگاری اور امن و امان کی خراب صورت حال میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ طِفل تسلیاں دے کر جاں چھڑائی جا رہی ہے کہ اشرافیہ کو معلوم ہے، کچھ دیر دہائی دینے، چیخیں مارنے اور رونے دھونے کے بعد یہ عوام صبر و شکر کر کے خاموش ہو جائیں گے ،نئے ٹیکس براہ ِراست لگا کر عوام پر مالی بوجھ ڈالا جا رہا ہے ۔ کہاں تک جائز اور کہاں ناجائز بوجھ ڈالا جا رہا ہے، اس کی کسی کو پروا نہیں ۔ قومی خزانے کی جھولی میں ہونے والے چھید بند نہیں کئے جاتے اور اپنی سیاست کو چمکایا جا رہا ہے ۔ حالت یہ ہے کہ پہلے مہنگائی ضرورہوتی تھی ۔ اب مہنگائی کے ساتھ ملاوٹ انتہا کو پہنچی ہوئی ہے ،دکھاوے کی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ اب کم وزن ، کم مقدار کی لہر آئی ہوئی ہے ۔ لوگ سو روپے خرچ کر کے سات آٹھ روپے کی چیز حاصل کرتے ہیں ۔ کم تولنے اور کم وزن کی اشیاء دینے والوں کو کوئی پوچھتا نہیں ۔ حکومتی حلقے اور اپوزیشن والے اپنے اپنے پوائنٹ سکور کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ عوام حسرت سے کہتے ہیں کہ یہ لوگ جس طرح اپنی تن خواہوں اور مراعات کیلئے اکٹھے ہو کر ایک دن میں بِل منظور کر دیتے ہیں، اِسی طرح مہنگائی ، ملاوٹ لوٹ مار پر بھی متحد ہو کر کبھی کوئی کارنامہ انجام دیں۔ لیکن ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا اوپر والے طبقے کو عوام کی کیا پروا ، سبھی اپنے مفادات اور اقتدار کی دیوی کی زُلفوں کے اسیر ہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024