وفاقی حکومت نے ایک دھماکہ خیز اعلان کر دیا ہے۔ اس اعلان کے مطابق پاکستان میں جن جن لوگوں کے پاس کالا دھن ہے وہ تیس جون تک اس کو سفید کروا سکتے ہیں۔ ان سب کالا دھن رکھنے والے پاکستانیوں کو بتایا گیا ہے کہ انہیں بیرونی ممالک سے اپنا تمام کالا دھن پاکستان بنکوں میں منتقل کرنا ہو گا اور اس تمام کالے دھن پر چار فیصد حکومتی کٹوتی کے بعد یہ سارا کالا دھن سفید دھن میں تبدیل ہو جائے گا۔ وفاقی حکومت نے ملک کے اندر اور بیرون ملک غیر ملکی کرنسی اور جائیدادوں کی صورت میں موجود کالا دھن کو سفید کرنے کے لئے ایمنسٹی سکیم کا اعلان کر دیا ہے۔ اس اعلان میں سابق سرکاری ملازمین اور موجودہ حکومتی سرکاری ملازمین کو شامل نہیں کیا گیا کیونکہ اس طرح موجودہ سرکاری ملازمین کو کھلی چھٹی مل جائے گی اور وہ رشوت خوری میں اضافہ کر کے زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے لگیں گے اور اسی کالی دولت کا صرف چار فیصد حکومتی خزانے میں جمع کروا کے باقی کالی دولت کو سفید کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
اب آتے ہیں غریب سرکاری پاکستانی عوام کی طرف۔ اس میں سیاسی رہنما بھی شامل ہیں۔ آصف زرداری کا خاندان اور شریف خاندان کے علاوہ وہ بہت سے سیاسی رہنما اس کالے دھندے میں ملوث ہیں۔ اور متوسط خاندانی ماضی رکھنے والے اب کروڑ پتی بن چکے ہیں اور بیرونی ممالک میں جائیدادوں کی ملکیت اپنے اور اپنے رشتہ داروں کے نام پر کروا چکے ہیں۔ اب اس تمام مجرمانہ کالی زرکاری کو قانونی تحفظ مل گیا ہے۔ اس تحفظانہ چھتری کے سائے میں کالے دھن کار چار فیصد قومی خزانے میں جمع کروانے کے بعد اپنے جرم پر پردے ڈال سکتے ہیں۔
چُھٹ جائیں گے مجرم سارے لگتا ہے
کالا دھن سفید بھی اب ہو سکتا ہے
اب آتے ہیں حکومتی پالیسی کی طرف۔ وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کے اندر اور بیرون ملک جتنے کالے دھن والے اکائونٹ اور کالی جائیدادیں ہیں انہیں قانونی بنانے کے لئے ایمنسٹی سکیم کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ نئے اور سابق پبلک ہولڈر سرکاری ملازمین کے سوا تمام پاکستانی جن کے پاس کالا دھن موجود ہے، ایک مخصوص شرح سے ٹیکس ادا کر کے اپنے کالے دھن کو سفید دھن کا درجہ دے سکتے ہیں۔ لیکن اس عمل کو کامیاب کرنے کے لئے کالے دھن کاروں کو یہ تمام کالادھن سرکاری بنکوں میں جمع کروانا ہو گا۔ اور پھر اس جمع شد اکائونٹ کی رسید دکھا کر اور اس بنیاد پر ٹیکس ادا کر کے اسے سفید بنایا جا سکے گا۔ اس کالے دھن کے دائرے کو مزید وسعت دیتے ہوئے یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ بے نامی اکائونٹ اور بے نامی جائیدادوں والے بھی اس سکیم سے فائدہ اٹھا سکیں گے لیکن ان تمام کالے دھن کاروں کو انکم ٹیکس فائلز بننا ضروری ہو گا۔ اس کالے دھن کو سفید بنوانے کی منظوری وزیراعظم عمران خان کے زیرصدارت ہونے والے ایک اجلاس میں دی گئی ہے۔
کالے دھن کی سفید بنانے کی سکیم کی منظوری کے بعد مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے ایف بی آر ہیڈکوارٹرز میں سکیم کے نکات کا اعلان کیا اور بتایا کہ اس سکیم کو آرڈی نینس کا اجراء کر کے نافذ کیا جائے گا۔ مشیر خزانہ نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا مقصد ریونیو اکٹھا کرنا نہیں ہے بلکہ سکین کا بنیادی مقصد کالے دھن کو سفید کرنے کا موقع دینا ہے۔ اور پاکستانی معیشت کو مضبوط بنانا ہے تا کہ پاکستانی معیشت تیز رفتاری سے چل سکے اور جو خفیہ کالے اثاثے ہیں انہیں معیشت میں ڈال کر فعال بنایا جا سکے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ یہ سکیم حقیقت پسندانہ ہو۔ آسان ہو۔ اس میں ریٹ بھی زیادہ نہیں رکھے گئے۔ اس سکیم کا مقصد کالے دھن کاروں کو ڈرانا نہیں بلکہ کاروباری لوگوں اور دھن کاروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے تا کہ وہ اپنے کالے دھن کو سفید بنا کر بنکوں میں جمع کروائیں اور کاروبار کو قانونی طریقے سے فروغ دیں۔ اس سکیم کے تحت ہر پاکستانی حصّہ لے سکے گا اور پاکستان کے اندر اور باہر تمام اثاثے ظاہر کرنا ہوں گے اور تمام اثاثوں پر چار فیصد کی شرح سے ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ نقد اثاثے ظاہر کرنے پر شرط یہ ہے کہ انہیں کسی بنک اکائونٹ میں رکھا جائے جبکہ رئیل سٹیٹ کے معاملے میں اس کی قیمت ایف بی آر کی مقرر کردہ قیمت سے ڈیڑھ فیصد زیادہ ہو گی۔ مشیر خزانہ نے بتایا کہ اگر کالی جائیداد کی قیمت دس لاکھ روپے ہے تو اسے پندرہ لاکھ روپے میں سفید کیا جا سکے گا اور اس پر ڈیڑھ فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ پاکستان سے بیرون ملک لے جائی گئی کالی رقوم کو اگر سفید کروانا ہے تو ان رقوم کو پاکستانی بنکوں میں منتقل کر کے ان پر چار فیصد ٹیکس دینا ہو گا۔ تاہم اگر وہ بیرونی رقوم کو پاکستانی بنکوں میں نہیں لانا چاہتے اور بیرون ملک ہی اس کالی رقم کو سفید کروا کر رکھنا چاہتے ہیںتو ٹیکس کی شرح چھ فیصد ہو جائے گی۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ موجودہ سکیم سابق سکیموں سے مختلف ہے۔ ملک میں بے نامی قانون منظور ہو چکا ہے۔ اس کے تحت اگر کوئی پاکستانی اثاثے ظاہر نہیں کرتا تو تمام اثاثے ضبط کئے جا سکتے ہیں اور یہ لوگ جیل میں بھی جا سکتے ہیں۔ لہٰذا موجودہ قانون میں بے نامی اکائونٹس اور جائیدادوں کو سفید کرنے کی مہلت دی جا رہی ہے اٹھائیس ممالک میں ڈیڑھ لاکھ اکائونٹس کا پتہ لگا لیا ہے اور مزید تحقیق کی جا رہی ہے۔ بے نامی اکائونٹ ہولڈز کو اثاثے ظاہر نہ کرنے پر پانچ سال کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ پندرہ مئی کو اس قانون کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ بھی کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی معیشت کی بحالی کے لئے یہ قانونسازی بہت ضروری تھی۔ وفاقی حکومت نے کیا خوب چال چلی ہے۔ کہ کالے دھن کو سفید کروا لیں۔
چل رہا ہے وفاق کیا چالیں
کالے دھن کو سفید کروا لیں
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024