میں کچھ مستحق لوگوں کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں کیونکہ زکوٰۃ میرے ایمان کا تیسرا حصہ ہے۔ میرے محبوب میرے رسولؐ نے زکوٰۃ کو فرض کیا ہے۔ جیسے ہم نماز پڑھتے ہیں جیسے ہم روزہ رکھتے ہیں، یہ دونوں کام اللہ کے لیے ہیں اور اپنے لیے بھی ہیں۔ نماز پڑھنے سے کیا کیا فائدے ہوتے ہیں، روزہ رکھنے سے کیا کیا فائدے ہوتے ہیں۔ یہ بہت لمبی بات ہے۔ پھر کبھی اس کے لیے پورا کالم لکھوں اور وہ بھی ادھورا ہو گا۔ کچھ ایسے فائدے ہیں جو صرف خالق حقیقی کو معلوم ہیں۔ کچھ تو ہے جو نامعلوم ہے اور وہی سب کچھ ہے۔ نامعلوم ان دیکھا ان سنا جو نظر نہیں آتا وہی سب کچھ ہے۔ زکوٰۃ میں بھی ایسے فائدے ہیں۔
میرا کالم کیسے زکوٰۃ ہو گیا؟ میں تو یہی کچھ اپنے دوستوں اور دوسروں کو دے سکتا ہوں۔ میرا معاملہ یہ ہے کہ میں نہ زکوٰۃ دے سکتا ہوں اور نہ زکوٰۃ لے سکتا ہوں۔ دونوں طرح سے اس حق سے محروم ہوں۔ میرے نزدیک زکوٰۃ لینے والا زکوٰۃ دینے والے سے کمتر نہیں ہے۔ میرا یہ کالم کچھ لوگ تو پڑھیں گے اور زکوٰۃ دینے والے بھی ہوں گے اور زکوٰۃ لینے والے بھی ہوں گے۔
وہ بھی زمانہ تھا جب لوگ زکوٰۃ اور خیرات لے کے پھرتے تھے اور کوئی لینے والا نہ تھا۔ یہ زمانہ پھر بھی آ سکتا ہے اگر ہم سب زکوٰۃ خیرات دینے والے بن جائیں۔ کچھ عرصے کے بعد ہر طرف خوشحالی اور بھائی چارے کی فضا ہو گی۔
ہمیں یہ حق نہیں کہ ہم خود طے کرتے پھریں کہ مستحق کون ہے اور کون مستحق نہیں ہے۔ میرے محبوب رسول کریمؐ نے فرمایا جو مانگ لے اسے دیا جائے۔ زکوٰۃ کے لیے یہ بات ہے کہ ہم بغیر مانگے بھی دینے کے پابند ہیں۔ زکوٰۃ دینے کے لیے فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے مگر کسی کے لیے اچھا مشورہ بھی وہ عمل ہے جو زکوٰۃ دینے کی طرح ہے۔
مجھے کچھ دوستوں نے اس ضمن میں بات کی ہے تو میں نے سوچا کہ میں اتنا کر سکتا ہوں کہ مذکورہ لوگوں کا تعارف کرا سکتا ہوں کہ ان کے بارے میں سوچیں کیونکہ یہ لوگ لوگوں کے لیے اپنے طور پر دردمندی سے سوچتے ہیں اور کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ میں جانتا ہوں اور میرے بھائی بہنیں بھی جانتی ہیں کہ کس کو زکوٰۃ دینا ہے مگر میں نے بھی زکوٰۃ دینی ہے اور میری زکوٰۃ یہی ہے کہ میں کالم کے ذریعے دوستوں کا اس طرف دھیان دلائوں۔
سب سے پہلے ایک بہت محترم اور ممتاز خاتون راحیلہ رباب ہیں جنہوں نے بڑی ثابت قدمی سے اپنا مشن جاری رکھا ہوا ہے۔ وہ بنیادی طور پر ٹیچر ہیں۔ سرکاری ملازمت چھوڑ کر ایک ویرانے میں ان بچوں کے لئے ایک کرائے کے مکان میں ایک سکول کی بنیاد رکھی۔ وہ بچے جو کسی شہر میں نہیں آسکتے، ان کی بستی میں کوئی سکول نہیں ہے۔ لاہور اور شیخوپورہ کے درمیان ایک گائوں ہے جس کا نام نہیں رکھا گیا۔ وہاں بہت چھوٹے پیمانے پر ایک مسجد کے سامنے درخت کے سائے میں بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔ اب ایک چھوٹے سے گھر میں ہیں جہاں بچے بڑے جذبے سے آجاتے ہیں اور یہ کام جاری وساری ہے۔ محترم خاتون راحیلہ رباب اس سلسلے میں پرعزم ہیں کہ وہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہوں گی۔ ان کا اکائونٹ نمبر 125969-5 مزید معلومات کیلئے آپ رابطہ کرلیں :0302-9664468
دوسرے نمبر پر روما احمد ہیں۔ان کا والد فوت ہوچکا ہے۔ والدہ بیمار ہیں‘ چھ بہنیں ہیں۔ ان کا اکائونٹ نمبر 231228534 ہے۔ ایچ بی ایل ٹھوکر نیاز بیگ‘ ان کا فون نمبر 0334-8216759/ 0334-5319833 ہے۔
تیسرے نمبر پر عمیر خالد ہیں‘ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ مائرہ 24گھنٹے دفتر میں رہتی ہیں۔ تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کو یہاں تازہ صحت مند خون سپلائی کیا جاتا ہے۔ یہ مریض بچے خون کی کمی یا خون کی کسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دفتر اور کلینک کا نام ام نصرت فائونڈیشن رکھا ہے۔ ماں کے نام پر اس ادارے کے لئے زکوٰۃ کی اپیل ہے۔ ان کا اکائونٹ نمبر 3025301900113749‘ فیصل بینک مون مارکیٹ اقبال ٹائون‘ فون نمبر: 0333-0481648 ہے۔
معروف شاعر ایوب ندیم کا تازہ شعری مجموعہ ’’رات ڈھلتی نہیں‘‘ شائع ہوگیا ہے۔ ایوب ندیم اس رات کا مسافر ہے جو دوست ستاروں سے بھری ہوئی ہے۔ جاگنا راتوں کا ہوتا ہے۔ ایوب ندیم جاگنے والوں میں سے ہے اور رات اپنا راز صرف جاگنے والوں کو دیتی ہے۔ اس کے بارے میں دانشور اور نقاد پروفیسر ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں۔ ’’سچ تو یہ ہے کہ اس کتاب میں ایوب ندیم نے گہری باتیں کی ہیں‘ یہ سب اس کی تخلیقی صلاحیت اور فنی ریاضت کا ثمر ہے۔‘‘
میں آسمان سے اترا تھا آئینوں کی طرح
بکھر گیا ہوں زمانے میں کرچیوں کی طرح
وہ بات بات سے کرتا ہے زخم زخم مجھے
وہ بانٹتا ہے میرے غم بھی دشمنوں کی طرح
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024