ہارس ٹریڈنگ....کرناٹک تک!
ہارس ٹریڈنگ دورِ حاضر خصوصی تیسری دنیا کے ملکوں میں کسی حد تک سکہ رائج الوقت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس ضمن میں ”چھانگا مانگا“ اور ”سوات“ ہارس ٹریڈنگ کی ایک علامت بن چکے ہیں۔اسی تناظر میں چند روز قبل پندرہ مئی کو بھارتی ریاست کرناکٹ میں صوبائی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا۔ جس میں بی جے پی نے سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت سے عنان اقتدار سنبھالی ۔ واضح رہے کہ بی جے پی نے انتخابات میں 104 سیٹیں حاصل کیں جبکہ حکومت بنانے کےلئے 112 نشستوں کی ضرورت ہے۔ کانگرس کو 78 اور سابق بھارتی وزیراعظم ”دیوی گوڑا“ کی جماعت جنتا دل سیکولر کو ، جس کی قیادت انکے صاحبزادے کمارسوامی کر رہے ہیں ، 37 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ ایسے میں کرناٹک میں سیاسی جوڑ توڑ پورے عروج پر ہے۔ کانگرس صدر راہل گاندھی نے انتخابات آنے کے فوراً بعد جنتا دل سیکولر کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کر دیا ۔یوں ظاہری طور پر ان کو واضح اکثریت حاصل ہو گئی مگر اس مرحلے پر BJP نے کہا کہ وہ چونکہ واحد اکثریتی پارٹی ہے لہذا اسے اپنی اکثریت ثابت کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ یہ دعویٰ کرنے کےلئے BJP گورنر کے پاس گئی جہاں کانگرس بھی فوری طور پر پہنچی مگر چونکہ گورنر بھی BJP سے تعلق رکھتے ہیں لہذا BJP کو یہ موقع فراہم کر دیا گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کرناٹک میں ہارس ٹریڈنگ زوروں پر ہے اور BJP کی کوشش ہے کہ ہر قیمت پر کانگرس یا جنتا دل سیکولر کے ارکان اسمبلی کی ہارس ٹریڈنگ کے بل بوتے پر خرید و فروخت کا بازار گرم کیا جائے۔واضح رہے کہ اس وقت کرناٹک میں ”چھانگا مانگا سٹائل“ کی سیاست اپنے عروج پر ہے۔ کانگرس نے اپنے 78 اراکین اسمبلی کو ایک ہوٹل میں تقریباً محبوس کر کے رکھا ہوا ہے۔ دوسری جانب کانگرس کے اتحادی جنتا دل سیکولر کے 38 ارکان کو بھی انہی کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ ان ارکان سے موبائل فونز تک لے لئے گئے ہیں تا کہ وہ کسی مخالف فریق سے رابطہ کر کے اپنی وفاداریاں تبدیل نہ کر پائیں۔ دوسری جانب BJP بھی سر توڑ کوشش کر رہی ہے کہ کانگرس کے حامی ارکان میں کسی بھی طور نقب لگائی جا سکے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق ہارس ٹریڈنگ کی فضا اس قدر نمایاں ہے کہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق BJP نے فی رکن 100 کروڑ کی بولی لگا رکھی ہے۔ اس صورتحال سے کانگرس اور اسکی اتحادی جماعت کو شدید تشویش لاحق ہے اور وہ اپنے ووٹوں کی حفاظت کیلئے تمام محبوس ارکان کو راتوں راتوں صوبے سے باہر منتقل کرنے کی کوششوں میں جٹی ہوئی ہے۔ BJP نے ان کوششوں کو ناکام بنانے کی تیاریاں کر رکھی ہیں۔ بی جے پی کی کوشش ہے کہ 15 دن کی ملی مہلت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا مطلوبہ ہدف پورا کرے چاہے اس کیلئے اسے وفاداریوں کی خرید و فروخت کی ”سنہری“تاریخ رقم کرنی پڑے۔
یہ امر بھی قارئین کےلئے یقیناً دلچسپی کا باعث ہو گا کہ مئی 1996 میں لوک سبھا انتخابات میں BJP کو سنگل لارجسٹ پارٹی ہونے کے سبب حکومت بنانے کی دعوت ملی تھی مگر واجپائی اور صدر ہند شنکر دیال شرما کی حکومت محض 13 دن قائم رہ پائی اور وہ مطلوبہ اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہے جس پر واجپائی کو استعفیٰ دینا پڑا ۔ اسکے بعد ”دیوی گوڑا“ کانگرس کی حمایت سے وزیراعظم کی مسند پر فائز ہوئے اور دس ماہ تک بھارتی وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ پھر ”اندر کمار گجرال“ ایک سال تک کانگرس اور جنتا دل کے مخلوط وزیراعظم رہے۔ بعد ازاں مارچ 1998 میں انتخابات کے بعد اٹل بہاری واجپائی دوبارہ وزیراعظم بن گئے۔ اس معاملے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ وہی ”دیوی گوڑا“ ہیں جنھیں BJP کے اکثریت ثابت نہ کر پانے کے بعد کانگرس کی حمایت سے بھارتی وزارت عظمیٰ ملی تھی۔ یوں اسے حسنِ اتفاق کہیں یا نیرنگیِ سیاست دوراں کہ 26 سال بعد نہ صرف عین وہی صورتحال درپیش ہے بلکہ کافی حد تک اس کے کردار بھی وہی ہیں۔ اب پھر BJP کو اکثریت ثابت کرنے کا مرحلہ در پیش ہے، مئی کا مہینہ ہے، کانگرس اور جنتا دل کا ہی اتحاد ہے اور اسی ”دیوی گوڑا“ کے بیٹے ”کمار سوامی“ دیوی گوڑا کی مانند وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں۔ یوں اگر 1996 کی طرح اب بھی بی جے پی صوبائی سطح پر اپنی اکثریت ثابت نہ کر سکی تو وزارت اعلیٰ کا ہما کمار سوامی کے سر بیٹھے گا۔ یوں بعض اوقات دیکھنے والا حیران رہ جاتا ہے کہ تاریخ کیسے اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی کرناٹک ہے جس کا سابقہ نام ”ریاستِ میسور“ تھا جہاں کے قلعے سرنگا پٹم میں شیرِ میسور ٹیپو سلطان نے آنکھ کھولی اور پھر یہ مجاہد آزادی اسی مئی کے مہینے میں ہی جرا¿ت و دلیری سے لڑتے ہوئے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر گیا اور جرا¿ت و استقامت کی نئی تاریخ رقم کر گیا۔