رمضان اور قرآن
موجودہ حکومت نے پہلی سے دسویں جماعت تک قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھنے کا قانون منظور کیا ہے جو قابل تحسین اقدام ہے۔ ہر مسلمان کو علم ہونا چاہیئے کہ اللہ اپنے بندوں پر کیا حقوق اور فرائض ادا کرتا ہے۔ قرآن کو ترجمے کے بغیر محض ثواب کیلئے پڑھنے کی روایت بڑی پرانی ہے۔ راقم کی بہو بیٹی ارم قذافی اپنے بچوں کو قرآن پڑھاتی ہیں۔ میرا ہونہار پوتا مرتضیٰ قذافی جو ابھی دوسری جماعت کا طالب علم ہے ایک دن اس نے اپنی ماں کو یہ کہہ کرحیران کردیا ”آپ جو قرآن مجھے پڑھاتی ہیں وہ میری سمجھ میں نہیں آتا لہذا مجھے ترجمے کے ساتھ پڑھائیں“۔ اگر ہم گھروں میں اپنے بچوں کو قرآن ترجمے سے پڑھانا شروع کردیں تو ایک معیاری اور مثالی نسل تیار کرسکتے ہیں۔ جو نسل قرآن کے پیغام سے پوری طرح آگاہ ہوگی وہ اپنی زندگی گزارنے کے بارے میں بہتر فیصلے کرسکیں گی۔ اس نسل کو کوئی اپنے سیاسی یا مذہبی مفادات کیلئے استعمال نہیں کرسکے گا۔ اللہ کے پیغام میں اس قدر طاقت اور قوت ہے کہ جو کوئی بھی اس کو سمجھ کر پڑھ لے تو وہ گمراہی سے بچ سکتا ہے۔ نماز اور زکوٰة کے بعد تیسری اہم عبادت روزہ ہے۔ عربی زبان میں روزے کیلئے صوم کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رک جانے اور اسے ترک کردینے کے ہیں۔ بندہ اپنے رب کے حکم پر اس کی رضا اور خوشنودی کیلئے ان چیزوں کو کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے جو اس کیلئے حلال ہوتی ہیں۔ قرآن کے مطابق روزے کا مقصد تقویٰ یعنی پرہیزگاری اختیار کرنا ہے۔روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا تعلق انسان اور خدا کے درمیان ہوتا ہے اور کوئی نہیں جان سکتا کہ کوئی شخص روزے سے ہے یا نہیں ہے اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہوتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کردئیے گئے جس طرح تم سے پہلے ابنیاءکے پیروکاروں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔ چند مقرر دنوں کے روزے ہیں اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرے۔ جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں)تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے کوئی اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے تو یہ اسی کیلئے بہتر ہے لیکن اگر تم سمجھو، تو تمہارے حق میں بہتر یہی ہے کہ روزہ رکھو رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کیلئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کررکھ دینے والی ہیں لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس مہینے کے پوری روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے سختی نہیں کرنا چاہتا اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے اس پر اللہ کی بڑائی کا اظہار اور اعتراف کرو اور شکر گزار بنو“۔ [183-185:2] روزے کے بارے میں اللہ کا پیغام بڑا واضح ہے۔ اللہ کی رضا اور منشا یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ مسلمانوں کیلئے روحانی تربیت کا مہینہ ثابت ہو۔ لوگ نیکی کی طرف مائل ہوں اور دوسروں کو نیکی کی طرف مائل کریں۔ روزہ صرف پیٹ کا نہیں ہوتا بلکہ یہ آنکھ، کان، زبان اور ہاتھ کا بھی ہوتا ہے جو اللہ کے حکم کے مطابق ایک حدکے اندر رہنے کے پابند ہوجاتے ہیں۔ایک قرآنی آیت کے مطابق انسان کے جسم کے اعضاءروز قیامت انسان کے بارے میں گواہی دیں گے۔
اگر روزے تزکیہ نفس نہ کریں اور برکت پیدا نہ کریں تو جان لیجئے ہم نے روزے کے تقاضے پورے نہیں کیے۔ اگر رمضان میں سحری اور افطار پر قرآنی اُصول کیمطابق اعتدال کی بجائے اصراف سے کام لیا جائے اور پر تکلف کھانے کھائے جائیں تو روزے میں روح اور تاثیر نہیں رہتی۔ رمضان میں اگر برائیوں سے گریز نہ کیا جائے، مسکینوں کو کھانا نہ کھلایا جائے، رمضان کے تقدس کا خیال نہ رکھا جائے، روزہ دار اپنا احتساب نہ کرے تو روزے کی برکت باقی نہیں رہتی۔ روزے کےساتھ روزے کی شرائط پوری کرنا بھی لازم ہے۔”اللہ کے رسولﷺ نے روزے کے بارے میں فرمایا ہے روزہ رکھنے والے کیلئے خوشی کے دو وقت ہیں ایک جب وہ روزہ کھولتے ہیں دوسرا جب وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کریں گے۔[بخاری] روزے دار کے منہ کی بُو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔[بخاری] رمضان کے مہینے میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں۔[بخاری] رمضان کے مبارک مہینے میں اللہ کے بندے پوری آزادی کےساتھ خیر وفلاح کے حصول کیلئے جدوجہد کرسکتے ہیں۔ شیطان ان کو گمراہ نہیں کرسکتا۔ اللہ کے رسولﷺ نے روزہ رکھنے والوں کو خاص بشارت دی ہے۔ ”جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے پچھلے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں“۔[بخاری] گویا رمضان میں ایمان کامل کا مظاہرہ کرنا اور اپنے اعمال کا احتساب کرنا لازم ہے۔
رمضان کے مبارک مہینے میں ایک برکت والی رات ”لیلة القدر“ آتی ہے اس رات فرشتے آسمان سے نیچے اُترتے ہیں اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نچھاور کرتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے۔”ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے اور تم کیا جانو شب قدر کیا ہے۔ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ فرشتے اور روح(جبرائیل) اس میں اپنے رب کے اذن (اجازت) سے ہر حکم لے کر اُترتے ہیں وہ رات طلوع فجر تک سراسر سلامتی ہے“۔[1-5:97] ابوہریرہؓ سے روایت ہے جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور اللہ کے اجر کی خاطر عبادت کیلئے کھڑا رہا اسکے تمام پچھلے گناہ معاف ہوگئے۔ [بخاری، مسلم]
رمضان کے مہینے کو تعلیم و تربیت کا مہینہ بنانا چاہیئے۔ قرآن کی بنیادی تعلیمات امانت، دیانت، صداقت، سخاوت اور انصاف پر عمل کیا جائے۔ ناجائز منافع خوری سے گریز کیا جائے۔ ہر شخص اپنا فرض ایمانداری سے پورا کرے۔ اخوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے غریب رشتے داروں کو افطار میں شریک کیا جائے۔ قرآن کی تبلیغ کی جائے خصوصی طور پر نوجوانوں کو قرآن کی بنیادی تعلیمات سے آگاہ کیا جائے۔ فحاشی اور بے حیائی سے گریز کیا جائے۔ الیکٹرانک میڈیا محترم جسٹس شوکت صدیقی کی ہدایات کے مطابق رمضان پروگراموں کو ناظرین کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنائیں اور رمضان المبارک کے تقدس او ر احترام کا خیال رکھیں۔ زکوٰة مستحق افراد اور اداروں کو دی جائے۔زکوٰة سے مراد وہ مال ہے جو پاکیزگی اور طہارت حاصل کرنے کیلئے دئیے جائیں۔ زکوٰة انسان کے نفس کو ان آلائشوں سے پاک کرتی ہے جو مال کی محبت میں اس پر غالب آسکتی ہیں۔ اللہ نے قرآن میں زکوٰة کا مقصد اور مفہوم بڑے واضح الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ”انکے اموال میں سے زکوٰة لو اس سے تم انہیں پاکیزہ بناﺅ گے اور ان کا تزکیہ کرو گے“۔[103:9] اللہ نے نیکی بھلائی اور خیر خواہی کی ہدایت ہر قوم کو کی زکوٰة کی ادائیگی خیر خواہی کے زمرے میں آتی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ”دین خیر خواہی کا نام ہے“۔[مسلم] شوکت خانم میموریل ہسپتال، اخوت، غزالی ایجوکیشنل ٹرسٹ، سندس فاﺅنڈیشن، الخدمت فاﺅنڈیشن، ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال، ایدھی فاﺅنڈیشن، منہاج ویلفیئر فاﺅنڈیشن، دی سالویشن آرمی انسانیت کی خدمت کررہے ہیں اور ہماری زکوٰة کے مستحق ادارے ہیں۔ میں اپنے محترم قارئین کو رمضان المبارک کی دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کے خاندانوں کو خوش رکھے اور مادر وطن کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔