نوازشریف کا نیا بیانیہ
میاں نوازشریف نے اپنی سیاست کا آغاز تحریک استقلال سے کیا اور یہ وہ وقت تھا جب روس نے افغانستان پر حملے کی حماقت کی تھی اور ایئرمارشل اصغر خان مرحوم واحد سیاستدان تھے جو افغان جنگ میں ملوث ہونے اور روس کا تعاقب کرنے سے منع کرتے ہوئے بار بار کہہ رہے تھے کہ پاکستان اس حماقت کا خمیازہ اگلے 50 سال تک بھگتے گا اور یہ جنگ امریکہ کی جنگ ہے لیکن اس وقت کے حکمران اور دینی و سیاسی جماعتوں نے ان کو ”روس کا ایجنٹ“ قرار دے کر اس جنگ کو پاکستان کی جنگ قرار دیا لیکن اب کئی دہائیوں کی تباہی و ناقابل تلافی نقصانات کے بعد تمام لوگ یہ بات مان چکے ہیں کہ واقعی یہ جنگ امریکہ کی جنگ تھی۔
بہرحال میاں نوازشریف اس وقت ایئرمارشل اصغرخان کو چھوڑ کر ان کے مخالف بیانیہ کے لوگوں سے جا ملے جب وہ نظر بند تھے اور ان قوتوں کے شانہ بشانہ چلنا شروع کردیا جو افغان جنگ کو پاکستان کی جنگ قراردیتے تھے۔ میاں نواز شریف پنجاب کے مشیر خزانہ بنے اور ضیاءالحق نے انگلی پکڑ کر انہیں سیاست میں دوڑنا سکھایا اور وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا۔ حالانکہ نوازشریف سے قبل ایئرمارشل اصغر خان کو 5 مرتبہ ضیاءالحق نے وزیراعظم بنانے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے ہر بار یہ کہہ کر مستردکردی کہ میں سیاست عوام کی خدمت کے لئے کر رہا ہوں اور کسی کی نوکری نہیں کرسکتا۔
نواز شریف آج جوکچھ کہہ رہے ہیں حالانکہ وہ 3 مرتبہ وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ پنجاب اور مشیرخزانہ پنجاب بھی رہ چکے ہیں لیکن اقتدار میں رہ کر کبھی بھی ایسی کوئی بات نہیں کی جو بات اب وہ تاحیات نااہلی اور نیب ٹرائل کے دوران کر رہے ہیں۔ اصول تو یہ تھا کہ جب وہ پہلی بار وزیراعظم بنے تھے اور انہیں علم ہوا کہ حکومت کے پاس وزارت داخلہ اور خارجہ نہیں ہے بلکہ کوئی اور یہ وزارتیں چلا رہا ہے تو وہ ایسے بے اختیار اقتدار پر لات مارکراستعفٰی دیتے اورقوم کو بتاتے کہ میں بے اختیار حکومت نہیں کر سکتا اور وزارت داخلہ وخارجہ کسی اور کے پاس ہے تو قوم ان کی بات کو سچ تسلیم کرتی اور انکے عمل سے اس بات کی سچائی ثابت ہوجاتی۔ جس طرح سے اب وہ فوج پر الزام لگا رہے ہیں تو اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ ایک نااہل شخص 3 بار ہمارا وزیراعظم بنا جو بے اختیار رہ کر بھی خاموش رہا اور وزارت داخلہ و خارجہ کے بغیر بار بار اقتدار کے حصول میں کوشاں رہا اور اب بھی ان کا دعوٰی ہے کہ الیکشن 2018ءمیں بھی ان کی پارٹی جیت کر حکومت بنائے گی۔ ایسی بے اختیار حکومت کے لئے وہ ملک میں مہم چلا رہے ہیں جس میں انہیںکوئی اختیار نہیں ہوتا۔ ایسی بے اختیار حکومت کا انہیں کیا فائدہ ہوگا؟ انکے موجودہ بیانئے سے 22کروڑ عوام حیرت زدہ ہیں کہ 3 بار وزیراعظم رہنے والا شخص پاکستان کو دنیا بھر میں تنہا کرنے کے درپے ہے اور یہ بھارت کی الزام تراشیوں پر مہر تصدیق ثبت کرکے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ بعض لوگوں کی تو یہ بھی رائے ہے کہ میاں نوازشریف کا یہ نظریہ ہے کہ اگر میں اقتدار میں نہیں آ سکتا تو ملک میں جمہوریت تو کجا خدانخواستہ اس ملک کی ہی کوئی ضرورت نہیں۔ اسی لئے تو انہوں نے پاکستان کی دیرینہ خارجہ پالیسی کے یکسر مخالف بات کرکے عالمی طور پر پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس طرح کرنے سے بھارت اور امریکہ ان کی مدد کریں گے۔میں نے میاں نوازشریف کے اچھے اقدامات کی ہمیشہ تعریف کی ہے لیکن اداروں سے ٹکرا¶ کی انکی پالیسی کی صرف مخالفت ہی کی جا سکتی ہے اسی لئے تو ”خلائی مخلوق“ کے بیان پر انکے بھائی شہباز شریف نے بھی کوئی جواب نہیں دیا اور کہا کہ اس متعلق بھائی صاحب سے ہی سوال کریں۔پیپلزپارٹی بھی 4 بار اقتدارمیں آئی ہے لیکن انہوں نے کبھی بھی اس طرح کی الزام تراشی نہیں کی اور نہ ہی فوج سے تصادم اور اداروں کے خلاف بیان بازی کی پالیسی اختیار کی ہے حالانکہ بھٹو صاحب کا عدالتی قتل بھی ہوا جس کا اعتراف سابق ججوں اور سینئر وکلاءنے برملا کیا لیکن اس کے باوجود پی پی نے کبھی تصادم کا راستہ اختیار نہیںکیا۔ بی بی کی شہادت پر بھی پی پی نے ملک مخالف یا اداروں کیخلاف بات نہیں کی بلکہ ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ لگایا جو قابل تحسین ہے اور پی پی کا طرز سیاست اور معاملہ فہمی کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے لیکن میاں نوازشریف پی پی کی پالیسی اور طرز عمل سے بھی کچھ نہیں سیکھ پائے اور ہمیشہ اداروں سے تصادم کا ہی راستہ اختیار کیا۔ موجودہ بیانیہ تو کھلی ملک دشمنی ہے۔