ہفتہ‘ 3 رمضان المبارک ‘ 1439 ھ ‘ 19 مئی 2018ء
جھنگ سے مسلم لیگ ن کے دو ایم این اے اور 12 رہنما پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے
شنید ہے کہ شمولیت سے پہلے چیئرمین صاحب شرف باریابی بخشتے ہیں۔ اسکے بعد یقین دہانیاں کرائی یا حاصل کی جاتی ہیں۔ ایجاب و قبول کے اس سارے عمل میں ولی ، نکاح خوان تو کہیں نظر نہیں آتا البتہ میڈیا موجود ہوتا ہے تصویریں بنتی ہیں۔ نئے آنے والے عموماً غیر مشروط حلقہ ارادات میں داخل ہوتے ہیں اس لئے ان سے کوئی لمبے چوڑے وعدے نہیں کئے جاتے البتہ انہیں ازقسم سند راہداری ایک تعریفی سرٹیفکیٹ دے دیاجاتا ہے۔ اس سند راہداری میں عموماً ان کی ”حب الوطنی“ کی تعریف تحریر ہوتی ہے اور ان کی طرف سے اس انکشاف کا ذکر ہوتا ہے، جو میاں صاحب کی طرف سے خلائی مخلوق کے ذکر کے بعد ان پر منکشف ہوا۔ بعض لوگ تحریک انصاف کے حلقہ ارادت میں داخل ہوتے وقت شرمائے شرمائے اور خجالت زدہ لگتے ہیں۔ ضمیر ان کی زبانوں کا ساتھ نہیں دے رہاہوتا۔ انہیں اس حالت میں دیکھ کر ترس آتا ہے کہ نہ جانے وہ کون سے حالات تھے جن میں وہ آئے نہیں لائے گئے ہیں۔” نشہ¿ حب الوطنی “ میں چور ایسے افراد کو دیکھ کر اچھے بھلے معقول لوگوں کو بیک وقت ہنستے بھی دیکھا اور روتے بھی۔ یہ سمجھ نہیں آتی ایسا کیوں؟
٭....٭....٭....٭
جمائما کے بھائی برطانوی سیاستدان زیک گولڈ سمتھ نے فلسطینیوں کے قتل عام کو جائزقرار دے دیا
ان سے تو روس کے وزیر خارجہ سرجی لاز دروف ہی اچھے نکلے جنہوں نے نیوز کانفرنس میں ایک صحافی کی اس بات پر کہ اسرائیل نے جن فلسطینیوں کو مارا وہ دہشت گرد تھے‘ طنزاً کہا‘ کیا شہید ہونے والے کمسن اور شیرخوار بچے بھی دہشت گرد تھے؟ کپتان کے سابق خسر اور سابق اہلیہ جمائما کے والد ، اور کپتان کے بیٹوں سلیمان خان اور قاسم خان کے نانا جان ، آنجہانی ارب پتی گولڈ سمتھ نسلاً یہودی اور عقیدتاً صہیونی تھے جن کا شمار اشراف برطانیہ میں ہوتا تھا۔ اسرائیل کو بنانے میں ان کا پیسہ بھی شامل ہے۔ دو سال قبل بلدیہ لندن کی لارڈ میئر شپ کے انتخابات میں لیبر پارٹی کے پاکستانی نژاد محمد صادق کے مقابلے میں کپتان کے سابق سالے اور ان کے بیٹوں کے ماموں جان زیک گولڈ سمتھ کھڑے تھے ۔ خان صاحب نے زیک کو جتوانے کے لئے اپنا سارا وزن ، سابق سالا صاحب کے پلڑے میں ڈال دیا مگر محمد صادق جیت گئے۔ ویسے تو خان صاحب کو ہار کر بھی ہار نہ ماننے کے کئی گُر آتے ہیں ان میں زیادہ شہرت دھاندلی اور دھرنے کو ملی ۔ اگر خان صاحب زیک صاحب کو یہ پٹی پڑھا دیتے تو شاید وہ بھی میدان مار لیتے کیونکہ اہل لندن زیادہ سے زیادہ دس دن کے دھرنے کی مار ہیں۔ ۔
٭....٭....٭....٭
انڈین نیشنل کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے کہا ہے کہ بھارت میں ہر طرف خوف کی فضا ہے صورت حال پاکستان کے دورآمریت جیسی ہوگئی ہے!!
راہول گاندھی ، پنڈت نہرو کی اکلوتی سپتری اندرا گاندھی کے پوتے ، اور راجیو گاندھی اور سونیا گاندھی کے فرزند ارجمند ہیں۔ ان کی اکلوتی بہن ، پریانکا نے کسی عیسائی بزنس مین سے شادی کرکے سیاست سے ناتا توڑ لیا ہے۔اُبھرتے ہوئے سیاستدان کو بھارت میں ہر طرف خوف کی فضا نظر آئی تو انہیں اسے بیان کرنے کےلئے پاکستان کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر تھوڑا سا یادداشت پر زور دیتے تو دادی جان کے عہد ”مثالی جمہوریت“ کا حوالہ بھی دے سکتے تھے جب اندراجی نے بھارت میں ہنگامی حالات کا اعلان کیا اور خالصتان کے رہنما اور سکھ ہیرو سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی تحریک کو نہایت بے رحمی سے کچل دیا جس میں سینکڑوں سکھ قتل ہوئے ۔ بھنڈرانوالہ نے پوتراستھان دربار صاحب امرتسر (گولڈن ٹمپل) میں پناہ لی ، چنانچہ فوج کو حکم ہوا کہ سنت کو زندہ یا مردہ حاضر کیا جائے ۔ تاریخ میں پہلی بار دربار صاحب میں اتنی خونریزی ہوئی کہ پوتر تالاب کا پانی خون سے رنگین ہو گیا۔ اس وقت سے بھارت میں مسلمان‘ مسیحی ، سکھ اور دوسری اقلیتیں جس طرح خوف و ہراس میں مبتلا ہیں‘ پاکستان ہی نہیں دنیا میں اس کی کہیں مثال ملتی ہے؟
٭....٭....٭....٭
الجزائر میں سبق یاد نہ کرنے پر طالبہ کو کوڑے دان میں پھینکنے والی معلمہ برطرف
الجزائر کی معلمہ کی خبر پڑھ کر جون پور کے قاضی کا قصہ یاد آگیا جون پور اب بھارت میں ہے۔ بڑاتاریخی شہر ہے جہاں بڑے بڑے نامور ، علماءادیب اور شاعر پیدا ہوئے‘ چار دانگ عالم میں جن کی علمیت کی شہرت ہوئی ۔ شاہان جون پور ، بھی علم نوازی کے لئے مشہور تھے ۔ قصہ یہ ہے کہ کمہار گدھے لیے ایک مدرسہ کے قریب سے گزرا ، جہاں مولوی صاحب ایک طالب علم کو بری طرح پیٹ رہے تھے ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے ۔ گدھے ! تجھے انسان بنا کر نہ چھوڑا تو میرانام مولوی عبدالغفور جون پوری نہیں۔ کمہار مولوی صاحب کی بات سے بڑا متاثر ہوا ، جب مولوی صاحب غریب طالب علم کی دھلائی سے فارغ ہوئے تو کمہار نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا میرے پاس ایک بڑا ہی اکھڑ قسم کا گدھا ہے آپ کی نظر کرم ہو تو اسے بھی انسان بنادیں۔ مولوی صاحب کمہار کی سادہ لوحی تاڑ گئے بولے ٹھیک ہے ، معاوضہ طے ہوا اور کمہار نے گدھا مولوی صاحب کے حوالے کر دیا اور چھ ماہ بعد آنے کا وعدہ لے کر شاداں و فرحاں گھر روانہ ہوگیا۔ چھ ماہ گزرے تو کمہار مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اس اثنا میں مولوی صاحب گدھا بیچ کر ہضم کر چکے تھے ۔ مولوی صاحب نے سادہ لوح کمہار کو بتایا کہ انہوں نے اس کے گدھے کو نہ صرف انسان بنایابلکہ اسے پڑھا لکھا کر جون پور کا قاضی بھی بنا دیا ہے۔ کمہار اپنی خوش بختی پر ناز کرتے ہوئے کچہری پہنچ گیا جہاں قاضی عدالت فرما رہے تھے ، اس نے عدالت میں داخل ہونے کی کوشش کی تو چوبداروں نے روک لیا پھر اسے ترکیب سوجھی گدھے کا پالان لے کر اسے قاضی کو دکھانا اور ایسی آوازیں نکالنا شروع کردیں جن سے کمہار گدھوں کو بلاتے ہیں۔ قاضی صاحب نے دیکھا تو سمجھے کوئی پاگل ہے جو اس قسم کی حرکات کر رہا ہے جب کمہار کی یہ حرکات بلاتوقف جاری رہیں تو قاضی نے چوبداروں کو بھیجا کہ اسے پکڑ لاﺅ۔ کمہار سے پوچھا گیا کیا ماجرا ہے۔ اس نے مولوی عبدالغفو ر کی ”انسان سازی“ کا قصہ سنایا۔ قاضی صاحب نے اسے کوتوال کے شہر کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد کمہار پر کیا گزری اور قاضی صاحب نے مولوی عبدالغفور کے ساتھ کیا سلوک کیا یہ بتانے کی حاجت نہیں۔ دراصل کمزور نالائق اور کودن طلباءکی مار پٹائی عہد قدیم سے ہے اور کسی ایک قوم سے وابستہ نہیں ۔ چند سال پہلے یہ عالم تھا کہ والدین بچوں کو ”منشی جی “ اور اب ماسٹر جی کے حوالے کرتے ہوئے صرف ایک ہی بات کہتے تھے ”چم (کھال ) آپ کا ہڈیاں ہماری “۔ اب تو زمانہ بدل گیا۔ ہر مدرسے اور سکول کے باہر لکھا ہوتا ہے”مار نہیں پیار“ اگر استاد بچے کو جسمانی سزا دے تو اس کا سخت محاسبہ ہوتا ہے۔