زر مبادلہ کے ذخائر میں تشویشناک کمی
سٹیٹ بنک کے مطابق گزشتہ ہفتے کے روز غیر ملکی قرضوں کی واپسی سود اور دوسری سرکاری ادائیگیوں کے باعث سٹیٹ بنک کے ذخائر میں 36کروڑ38لاکھ ڈالر کی کمی ہوئی، جس سے سٹیٹ بنک کے ذخائر 4سال کی کم ترین سطح پر آ گئے۔ ہفتے کے اختتام پر قومی بنک کے پاس 10ارب 79کروڑ 88لاکھ ڈالر اور کمرشل بنکوں کے پاس 6ارب 26کروڑ 81لاکھ ڈالر رہ گئے۔ رواں مالی سال کے دوران ساڑھے چار ارب ڈالر سے زائد کے نئے قرضوں کے باوجود سٹیٹ بنک کے پاس زر مبادلہ کے ذخائر میں5ارب 34کروڑ ڈالر کی کمی آ چکی ہے، اس میں چین نے بھی ایک ارب ڈالر قرض دیا، پھر بھی صورتحال مایوس کن ہے۔
تین ماہ قبل آئی ایم ایف نے کم ہوتے ذخائر کے حوالے سے وارننگ دی تھی، مگر اس طرف توجہ نہیں دی گئی یا حالات ہی ایسے پیدا کردیئے گئے کہ حکومت کی توجہ کسی اور طرف بٹی رہی۔ برآمدات اور ترسیلات ہمارے زر مبادلہ کا ایک اہم ذریعہ رہی ہیں ، ملکی حالات کے باعث برآمدات نہ ہونے کے برابر رہ گئیں جبکہ مشرق وسطیٰ میں عرب ایران، چپقلش کے باعث خلیجی ممالک سخت دباﺅ میں ہیں۔ انہوں نے اپنے بیشتر وسائل کا رخ ترقیاتی کاموں سے موڑ کر، اسلحہ کی خریداری کی طرف کر دیا ہے، جس سے ان ملکوں میں کام کرنے والے پاکستانیوں کے روزگار پربرا اثر پڑا ہے۔ الارمنگ صورتحال یہ بن رہی ہے کہ لیبر کی واپسی شروع ہو گئی ہے یا ان پر ٹیکس لگا دیئے گئے ہیں اور ان کی اجرتیں بھی کم کردی گئی ہیں جس سے ترسیلات میں نمایاں کمی ہورہی ہے۔ داخلی و خارجی صورتحال ایسی ہو تو زر مبادلہ کے دخائر کیسے بڑھیں گے۔ بیرونی قرضے پہلے ہی 90 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ اس تشویشناک صورتحال کا خمیازہ آنے والی حکومت ہی بھگتے گی۔ شائد اسے خزانہ خالی ہی ملے۔