نوازشریف بیانیے سے رجوع نہیں کرتے تو پارٹی کا مستقبل داﺅ پر لگ سکتا ہے
سابق وزیراعظم کے بیانیے پر لیگی ارکان کے تحفظات‘ شہبازشریف بیانیے میں نرمی لانے کیلئے کوشاں
مسلم لیگ (ن) کے صدر اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے سابق وزےراعظم نواز شریف کے حالیہ انٹرویو پر شدےد ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس نے بھی ےہ انٹروےو کروایا“ اس نے مسلم لےگ (ن) کے ساتھ زیادتی کی‘ وہ نواز شریف کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ مسلم لےگ (ن) کے قائد نواز شرےف کے بیان پر ہر فورم پر بات کی جا چکی ہے، اس حوالے سے پارٹی پالیسی وضع کی جائیگی، پارلےمانی پارٹی کے ارکان کے تحفظات نواز شریف کے سامنے رکھوں گا۔ انہوں نے ےہ بات پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی جو جمعرات کو پارلےمنٹ ہاﺅس مےں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے خصوصی دعوت پر شرکت کی۔ پارلےمانی پارٹی کے ارکان نے اجلاس میں پارٹی کے قائد میاں نواز شریف کے حالیہ بیان سے پیدا ہونیوالی صورتحال پر پارٹی صدر میاں شہباز شریف کے سامنے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ اجلاس میں مسلم لیگ (ن)کے 100 سے زائد ارکان قومی اسمبلی موجود تھے۔ پارلیمانی پارٹی کے ارکان نے کہا کہ نواز شریف کے حالیہ بیانات کے بعد سیاسی ماحول سازگا ر نہیں رہا، ہمیں انتخابی مہم میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لہٰذا صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ پارلیمانی پارٹی کے ارکان نے شہباز شریف پر زور دیا وہ اس سلسلے میں رہنمائی کریں کہ موجودہ حالات میں کس طرح میاں نواز شریف کے بیانیہ کا دفاع کیا جا سکتا ہے۔ میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ نواز شریف ہم سب کے قائد ہیں اور انکی حب الوطنی پر سوال اٹھانے والوں کو منہ توڑ جواب دینا چاہئے‘ ہم سب محب وطن ہیں۔انہوں نے کہا کہ آپ لوگ بھی ان سے بات کریں۔ میاں نواز شریف کی جانب سے انہیں مثبت جواب موصول ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی ہی اس کا سب سے بڑا دفاع ہے۔ اجلاس میں وفاقی وزیر پاور ڈویژن سردار اویس لغاری اور وزیر مملکت عبدالرحمان کانجو نے کہا کہ ہم آزاد الیکشن لڑ کر مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے تھے اور آج بھی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کھڑے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ نواز شریف کے حالیہ بیانیے میں نرمی لانے کی ضرورت ہے۔ میاں شہباز شریف نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اس بیانیے میں نرمی لانے کیلئے بھرپورکوشش کرےگی۔
مسلم لیگ (ن) میاں نوازشریف کے نام پر قائم کی گئی پارٹی ہے۔ اسکی سیاست بجا طور پر ایک عرصہ تک میاں نوازشریف کی شخصیت سے گرد گھومتی رہی۔ آج مسلم لیگ (ن) اقتدار میں ہے تو میاں نوازشریف کی عوام میں مقبول شخصیت کے علاوہ شہبازشریف کی پانچ سالہ کارکردگی بھی اس کا باعث ہے۔ پنجاب میں سرعت کے ساتھ ترقیاتی کاموں کی تکمیل‘ عوامی فلاحی منصوبے مسلم لیگ (ن) کی عوام میں مقبولیت کا باعث بنے۔ 2013ءکے انتخابات میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اسی کارکردگی کے باعث کامیاب ہوئی اور2018ءکے انتخابات میں بھی اسکے ثمرات ملنے کے امکانات ہیں۔ مرکزی حکومت کی کارکردگی بھی کوئی بری نہیں رہی۔ دہشت گردی کا کافی حد تک خاتمہ ہو چکا ہے۔ پہلے جیسی جان لیوا لوڈشیڈنگ بھی نہیں ہے۔ شاہراہیں اور موٹرویز بن رہے ہیں‘ سی پیک اس حکومت کے نمایاں کارناموں میں ہے۔ یہ سب کچھ دھرنوں کے باوجود ہوا جن کی وجہ سے ترقی کی رفتار اگر رکی نہیں تو سست ضرور ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) کیلئے مایوس کن حالات پانامہ کیس میں میاں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ سے نااہلیت کے بعد پیدا ہوئے۔ اس سے اپوزیشن نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی مگر میاں نوازشریف کے اداروں کیخلاف کھل کر سامنے آنے اور انکے اختیار کئے گئے سیاسی بیانیے پر عوامی سطح پر بادی النظر میں پذپرائی ملی اور نااہلیت کے فیصلے کے بعد سیاسی مقبولیت کا بگڑنے والا توازن درست ہونے لگا۔ میاں نوازشریف کے ”ووٹ کو عزت دو“ کے بیانیے کو عمومی طور پر پذیرائی اور پنجاب میں تعلیم و صحت کے اقدامات فلاحی منصوبوں خصوصاً میٹروبس کے تین شہروں میں اجراءپر مسلم لیگ (ن) کا ایک بار پھر مختلف سروے رپورٹوں میں 2018ءکے الیکشن میں پلہ بھاری نظر آرہا تھا۔
حالات میں تغیر کا کچھ پتہ نہیں چلتا‘ میاں نوازشریف اپنے بیانیے میں نئی جہتیں شامل کرتے گئے۔ اداروں کیخلاف جوش خطابت میں وہ اس حد تک آگے چلے گئے کہ ملکی مفادات بھی زد پر نظر آنے لگے۔ انکے ممبئی حملوں پر اس نئے بیانیے سے کہ ”کیاغیر ریاستی عناصر کو اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ سرحد پار جا کر 150 لوگ قتل کردیں اور یہ کہ راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں چلنے والے ممبئی حملوں کی ابھی تک کارروائی مکمل کیوں نہیں ہوئی“ کو کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ یہ بھارت کا عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کا بیانیہ ہے۔ چنانچہ مسلم لیگ (ن) کے سابق وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خاں کو فوری طور پر ایک بیان جاری کرکے ممبئی حملوں سے متعلق حقائق سامنے لانا پڑے جبکہ وزیراعظم کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی نے بھی متفقہ طور پر اس بیانیے کو مسترد کیا۔ جب پاکستان کے تین بار وزیراعظم رہنے والے میاں نوازشریف عین اس موقع پر جب پاکستان کو گرے و بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کا فیصلہ ہونا ہے‘ ایسا بیان دینگے جن سے بھارتی موقف کو تقویت حاصل ہوتی ہو تو یہ بھارت کیلئے پاکستان کو دہشت گردوں کا پشت پناہ قرار دلا کر پابندیوں کی زد میں لانے کا بہترین موقع ہو سکتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد کے اس اقدام سے پاکستان کس قدر خطرات میں گھر سکتا ہے شاید اس کا میاں نوازشریف کو اندازہ نہیں۔ اگر اندازہ ہے تو وہ کس نوعیت کی سیاست کررہے ہیں۔ اس کا بھی انہیں بخوبی علم ہوگا۔
میاں نوازشریف نے اس ڈان لیکس کا بھی اعتراف کیا ہے جس پر ایک انکوائری کمیشن بنا مگر اسکی رپورٹ اب تک سامنے نہیں آئی۔ یہ سٹوری شائع کرنیوالے رپورٹر کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا۔ اے ڈرایا دھمکایا جاتا رہا۔ اخبار کیخلاف پابندی کی باتیں ہوتی رہیں مگر آج کہا جارہا ہے کہ ڈان لیکس درست تھی۔ اس پر بھی پارٹی کے اندر اور باہر سے ناپسندیدگی پائی جاتی ہے۔ ممبئی حملوں کے حوالے سے بیان پر ایک شدید ردعمل کے بعد بجائے اسکے کہ وہ اس سے رجوع کرتے‘ انہوں نے اسکی تصدیق کی جبکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اس پر عذر گناہ بدتر ازگناہ کے مصداق ڈان لیکس کی طرح اس خبر کا ملبہ اخبار پر ڈال رہے تھے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کے بعد اس بیان کو گمراہ کن قرار دے کر اسکی مذمت کرتے نظر آئے تھے۔ سابق وزیراعظم نے انہیں ملاقات کیلئے بلایا تو وزیراعظم انہی کی زبان بولنے لگے۔ سپیکر قومی اسمبلی ایازصادق نے بھی ملاقات کے بعد اس بیانیے کی تائید کی۔ مسلم لیگ (ن) کو اپنے قائد کے نئے بیانیے سے جو نقصان ہوچکا اس کا اظہار پارلیمانی اجلاس میں ارکان نے کھل کر کیاہے اور چودھری نثار علی خاں کی اجلاس میں عدم شرکت کے بارے میں بھی استفسارات کئے۔ اس نقصان کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ اسی صورت ممکن ہے کہ میاں نوازشریف اپنا بیان واپس لیں اور آئندہ ایسی کوئی بات نہ کہیں جس سے عوامی حلقوں میں ہیجان پیدا ہو‘ ملک کی سالمیت زد پر آئے اور پارٹی نقصان سے دوچار ہو۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف صورتحال کو سنبھالنے کیلئے کوشاں ہیں۔ میاں نوازشریف کے موقف سے پارٹی صدر کیلئے مشکلات پیدا ہورہی ہیں جو پارٹی کو اچھے انداز میں لیڈ کررہے ہیں۔ شہبازشریف اپنے قائد کے مدمقابل آنے کیلئے کسی صورت تیار نہیں۔ سابق وزیراعظم اور موجودہ صدر کے مابین یگانگت اور ہم آہنگی کے بغیر پارٹی میں اتحاد و یکجہتی کی مثالی فضا قائم نہیں رہ سکتی۔
اس وقت مسلم لیگ (ن) کے ارکان قومی و پنجاب اسمبلی کے پارٹی سے نکل کر دوسرے گھونسلوں میں بسیرا کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اگر میاں نوازشریف اپنے بیانیے سے رجوع کرلیتے ہیں تو مسلم لیگ (ن) مزید نقصان سے بچ سکتی ہے۔ (ن) لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی مقبولیت میں بڑا گیپ ہے۔ وہ سردست پورا ہوتا نظر نہیں آتا تاہم نوازشریف اپنے بیانیے پر قائم رہتے ہیں اور چودھری نثار علی الگ راستہ اختیار کرتے ہیں تو نواز لیگ کا سیاسی مستقبل بچانا مشکل ہو جائیگا۔ میاں نوازشریف کو اس کا بہرصورت ادراک ہونا چاہیے۔