دختر رسولؐ حضرت فاطمہ زہراؓ
ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی
سیدۃ انبیائ، خاتون جنت دختر رسولؐ کریم حضرت فاطمہؓ کی عظمت و فضیلت تسلیم شدہ ہے۔لترمذی شریف اور مشکوۃ شریف کے مطابق محسن انسانیت جب بھی کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخراپنی پیاری بیٹی سے ملتے اور واپسی پر سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ سے ملنے آتے، جب حضرت فاطمہؓ تشریف لاتیں تو کھڑے ہو جاتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے۔ حضرت فاطمہؓ کی ولادت مبارکہ اس وقت ہوئی جب قریش تعمیر خانہ کعبہ میں مصروف تھے۔ یہ واقعہ بعثت سے پانچ سال قبل کا ہے۔ اس وقت حضور اکرم ؐ کی عمر مبارک 35برس تھی۔
’’نام فاطمہؓ، لقب سیدۃ نساء العالمین، البضعۃ النبویۃ (جگر گوشہ رسولؐ) ام ابیھا (کریمۃ الطرفین)، ام الحسنین، حضرت فاطمۃ الزہرائؓ تھا۔ حضرت فاطمہؓ کے بارے میں جو احادیث مروی ہیں ان کی بنا پر ان کی شخصیت، تعظیم و تکریم اور عزت و شرف کے اعتبار سے عورتوں میں افضل و اشرف مانی جاتی ہے۔ حضرت فاطمہؓ، جو دنیا میں مواہب الہیہ کا مظہر تھیں، آخرت میں بھی تاج سعادت پہنیں گی۔ ان کے بارے میں آنحضرتؐ نے فرشتے کے ذریعے اطلاع پا کر سیدۃ نساء اہل الجنتہ کی خوش خبری دی۔
نبی اکرم ؐنے ارشاد فرمایا:
’’جتنی عورتوں میں حضرت خدیجہؓ اور حضرت فاطمہؓ افضل ہیں‘‘ (سیراعلام النبلا 2:90)۔ ایک اور حدیث میں آپؐ نے دنیا بھر کی عورتوں میں سے چار خواتین کو بہترین قرار دیا: حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت مریمؑ اور حضرت آسیہؓ، بعض دوسری روایات میں حضرت عائشہؓ کی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے۔ ان کے خطابات اشرف النسائ، ام الائمۃ الاصفیائ، البضعۃ الطاہرہ ا ور سیدۃ النسائ، ان کے شرف و مرتبے کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کا لقب ان کے چہرے کی آب و تاب کے سبب الزہرائ، حضرت حسینؓ کی صاحبزادی فاطمہ سے آپؓ کوممیز کرنے کے لئے لقب الکبری اور خدا سے لو لگانے کی وجہ سے بتول، انزوا، نیز ان کے القاب الراضیۃ، المرضیۃ، المیمونۃ الزکیۃ بھی ہیں۔ یہ سب ان کے فضائل و صفات حسنہ کو بخوبی واضح کر دیتے ہیں۔ (بحوالہ سیدۃ خیرالانامؐ، صفحہ 732)
رسول اللہ ؐحضرت فاطمہؓ سے بالخصوص بے حد الفت و محبت رکھتے تھے۔ آپؐ نے جب اشاعت اسلام کا مقدس کام شروع کیا تو ان مظالم سے جو مشرکین کی طرف سے آپؐ پر ہوتے رہے، حضرت فاطمہؓ کا حساس دل ہمیشہ بہت متاثر ہوتا رہا اوراپنی والدہ کے انتقال کے بعد انہوں نے دل و جان سے رسول اللہ ؐ کی خدمت کے لئے وقف کردیا۔ رسول اللہ ؐ بھی اکثر انہیں اپنے پاس سے جدا نہ ہونے دیتے اور ہمیشہ انہیں محبت اور شفقت سے یاد فرماتے تھے۔
حضرت فاطمہؓ کے بچپن کے ایام کا قصہ ہے، کہ ایک دن جب نبی اکرم ؐصحن کعبہ میں نماز ادا کرنے میں مصروف تھے کہ ابوجہل کے کہنے پر عقبہ بنابی معیط نے ذبح کئے ہوئے اونٹ کی اوجھ لا کر دوران سجدہ میں آپؐ کی گردن مبارک پر رکھ دی، حضرت فاطمہؓ کو پتا چلا تو انہوں نے آ کر آپ کو اس اذیت سے نجات دلائی (بحوالہ سیرت خیرالانام، صفحہ 729)
سیرت کی کتب کے مطابق شکل و صورت میں حضرت فاطمہؓ اپنی والدہ حضرت خدیجہؓ سے بہت مشابہہ تھیں۔ وہ آنحضرتؐکے ساتھ احد کی جنگ میں بھی شریک ہوئی تھیں اور وہاں مجاہدین اسلام کو پانی پلاتی رہیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی رہیں۔ جب آپؐ مجروح ہوئے تو حضرت فاطمہؓ آپؐ کی مرہم پٹی کی تھی۔ حضرت علیؓ کی ہمشیرہ ام ہانیؓ کی روایت کے مطابق حضرت فاطمہؓ فتح مکہ کی مہم میں بھی شریک ہوئی تھیں۔ حضرت فاطمہؓ آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد تھوڑا عرصہ زندہ رہیں۔ان سے جو مروی حدیثوںکی تعداد کافی ہے۔(بحوالہ: سیرۃ خیرالانامؐ صفحہ 735)
حضرت فاطمہؓ کا نکاح حضرت علیؓ سے (غزوہ بدر کے بعد ) ماہ صفر (بقول بعض ذوالقعدہ یا ذوالحجہ) 2ھ میں ہوا۔ اور پانچ سو درہم (بقول بعض 480 یا چار سو درہم مہر مقرر ہوا۔ البتہ رخصتانہ جنگ احد کے بعد ہوا۔ بقول ابن کثیر شادی کے وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عمرپندرہ برس پانچ ماہ تھی۔رسم نکاح مسجد نبوی میں نہایت سادہ طریقے سے ادا ہوئی اور نکاح کے بعد حاضرین کو شہد کا شربت اور کھجوریں تقسیم کی گئیں۔
جہیز میں جو سامان دیا گیا تھا وہ ایک تخت خواب، دو توشکین، ایک گرم چادر، تکیہ، پانی کی چھاگل (مشکیزہ) اور لوٹا وغیرہ پر مشتمل تھا۔ دعوت ولیمہ جو اسی سال حضرت فاطمہؓ کی رسم نکاح کے بہت دنوں بعد کی گئی وہ بھی اسی طرح سادہ اور پاکیزہ تھی۔ (بحوالہ سیرۃ خیرالانام، صفحہ 728)
سیرت خیرالانام ؐکے صفحہ نمبر 731 پر حضرت فاطمہؓ کی وصیت درج ہے جس میں آج کے دور میں خواتین کے لئے تقلید، اعلیٰ نمونہ موجود ہے۔
وفات سے پہلے حضرت فاطمہؓ عنہا نے حضرت اسماؓ بنت عمیس کو یہ وصیت کی کہ ان کے جسد مبارک کو اس طرح اٹھایا جائے کہ کوئی شخص یہ نہ جان سک کہ یہ جنازہ عورت کا ہے یا مرد کا، نیز یہ کہ آپؓ کو رات کے وقت دفن کیا جائے۔ اس لئے جسد مبارک کے اوپر کے حصے کو کھجور کی شاخوں سے اس طرح ڈھانپ دیا گیا کہ آپؓ کا جسم دکھائی نہ دے سکے۔ غسل میت وصیت کے مطابق حضرت اسمائؓ بنت عمیس، حضرت علیؓ اور حضرت سلمیٰ ام رافع نے دیا۔ نماز جنازہ حضرت علیؓ (یا بروایت دیگر حضرت عباسؓ) نے پڑھائی۔
پروفیسر محمد رضا خان، تاریخ مسلمانانِ عالم کے صفحات 92-93 پر رقمطراز ہیں: آپ ؓ کی زندگی کا ہر پہلو دنیا بھر کی عورتوں کے لیے قابل تقلید ہے۔
باری تعالیٰ نے حضرت فاطمہؓ کی اولاد میں بڑی برکت عطا فرمائی۔حضرت فاطمہؓ کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ یعنی حضرت حسن ؓ ، حضرت حسین ؓ ، حضرت محسنؓ ، حضرت زینبؓ اور حضرت اُم کلثوم، حضرت فاطمہؓ کی نسل حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے ذریعے دنیا میں باقی رہی۔
مسلم خواتین دورِ حاضر میں حضرت فاطمہؓ کی سیرت پاک سے انتہا درجہ کی رہنمائی حاصل کر سکتی ہیں اور مسلم معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔