سحر و افطار کی دعاﺅں میں سرحدوں پر فائز پاک فوج کے عظیم شہدا مجاہدین و غازیوں اور ان کے اہل خانہ کو بھی یاد رکھیں۔ وطن عزیز کے سپوت جانیں نچھاور کر رہے ہیں۔ ماﺅں کی گودیں ویران ہورہی ہیں۔ سہاگنیں اجڑ رہی ہیں ،لاڈلے سپوت یتیم ہو رہے ہیں۔۔۔اگر ان کا نام اسٹبلشمنٹ ہے تو اس اسٹبلشمنٹ کو سلام۔ یاد رہے کہ آپریشن ردالفساد کے تحت سیکیورٹی فورسز نے بلوچستان کے علاقے کلی الماس میں آپریشن کیا جس کے نتیجے میں لشکر جھنگوی بلوچستان کے سربراہ سمیت تین دہشت گرد ہلاک ہوئے۔دہشت گردوں سے فائرنگ کے تبادلے میں ملٹری انٹیلی جنس کے کرنل سہیل عابد شہید جبکہ 4 جوان زخمی ہوگئے تھے جن میں سے دو کی حالت تویشناک بتائی جاتی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے آرمی قبرستان میں نماز جنازہ کے موقع پر کرنل سہیل عابد کے بیٹے سے ملاقات کی اور اسے اپنے گلے لگایا ، آرمی چیف کا کہناتھا کہ جب بھی میرا کوئی جوان شہید ہوتاہے تو ایسا لگتاہے جیسے میرے جسم کا ایک حصہ جدا ہو گیاہے ، وہ رات گزارنا میرے لیے بہت مشکل ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ہم اپنے وطن کے دفاع کیلئے ہر کسی قسم کی قربانی دینے کی صلاحیت اور عزم رکھتے ہیں۔شہید کرنل سہیل عابدکا تعلق پنجاب کے علاقے وہاڑی سے تھا۔تین بیٹیاں اور اکلوتا بیٹا ہچکیوں سے رو رہے تھے۔کرنل شہید کا کم سن لخت جگر سپہ سالار سے لپٹ کر روتا رہا۔اس سوگوار موقع پر امین مگسی کی تحریر ہمارے دل کی آواز ہے کہ کل پرسوں محترم جاوید ہاشمی صاحب پریس کانفرنس کرکے کہہ رہے تھے، تم فوجیوں کو ہم سویلین کے آگے جھکنا ہوگا۔ تمہیں سویلین کو سلیوٹ مارنا ہوگا۔ ہاشمی صاحب کی بات سے اتفاق ہے جب اور جہاں سلیوٹ مارنا چاہیے بالکل مارا جائے مگر ہاشمی صاحب !ایک فوجی جرنیل بھی وردی اتار دے تو اسے ایک سپاہی بھی سلیوٹ نہیں مارتا کیونکہ سلیوٹ انسان کو نہیں، اس مرتبے اور عہدے کو مارا جاتا ہے اور ایک عام فوجی بھی جب ملک کیلئے قربانی دیتا ہے تو وقت کا جرنیل بھی اسے سلیوٹ مارتا ہے۔فوج میں سب سے بڑا مقام شہادت کا ہے، جہاں سارے مرتبے جھک جاتے ہیں، سلیوٹ مارتے ہیں، آپ سیاستدانوں نے کیا کیا ہے سوائے پارٹیاں بدلنے کے۔محترم ہاشمی صاحب کچھ عرصہ اسلامی جمیعت میں کام کرکے اسے نہ چھوڑ دیتے۔ پھر ن لیگ کے ساتھ محبوبہ کی طرح جینے مرنے کی قسمیں کھا کر اسی محبوبہ ن لیگ کا نظریاتی سپاہی بن کر رہتے، پی ٹی آئی میں نہ جاتے۔ اگر بالفرض پی ٹی آئی میں گئے ہی تھے تو اسے نہ چھوڑتے اگر چھوڑا بھی تھا تو دوبارہ ن لیگ میں نہ جاتے۔ ہاشمی صاحب کی ساری زندگی پارٹیاں بدلنے میں گزر گئی ہے اور اب جب ان کی ضعیف العمری کو دیکھ کر سب ان کا احترام کرتے ہیں تو مسلم لیگ ن میں مقام بنانے کے لئے اداروں پر گرجنا شروع کر دیا ؟جرنیلوں سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں اور بہت بڑی غلطیاں ہوئی ہیں مگر سیاستدان جمہوریت کو مقدس گائے سمجھ کر اداروں پر چڑھ دوڑتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم اداروں کے خلاف بول رہے ہیں تو ہمیں بہادر سمجھا جائے گا۔فوج سلوٹ کرے گی، پہلے سلوٹ کرانے والے کام تو کریں۔ یہ پارٹی بازیاں یہ شخصیت پرستیاں چھوڑ کر ملک کے تحفظ کی قسم تو کھائیں۔ ایک شخص جو خوشی خوشی عدالتوں میں گیا، جب نااہل ہوا تو سیاستدان ایک شخص کی خاطر عدالتوں پر چڑھ دوڑے۔ آخر اس ملک میں اور کونسے ادارے ہیں، ایک فوج اور عدلیہ ہی تو ہے۔اصل مسلم لیگ اور کارکن تو وقت کے ساتھ رخصت ہوگئے اور نقل مسلم لیگوں نے جنم لے لیا۔ اصل مسلم لیگیوں کا رومانس ان کا آزاد پاکستان تھا اور ہے۔ اصل مسلم لیگیوں کا رومانس ان کی جماعت تھی اور ہے۔ گو کہ اس وقت پاکستان نظریاتی مسلم لیگ سے محروم ہے لیکن رومانس نقل میں اصل کی مشابہت تلاش کرتا ہے۔ بھٹو کے عاشق زرداری کے ساتھ بھی لگ گئے کہ رومانس بھٹو تھا۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے عاشق مسلم لیگ سے منسلک ہو گئے۔ بابائے قوم تو نہ رہے لیکن ان سے والہانہ عقیدت نے مسلم لیگ کو دلوں میں زندہ رکھا۔ یہ وہی رومانس ہے جو نقل پر بنائی گئی مسلم لیگوں کے ساتھ بھی جاری رہا۔ مسلم لیگی نظریاتی گھرانوں میں پرورش پانے والی نسلوں میں دو قومی نظریہ کا شعور موجود ہے۔ جو مودی کا یار ہے غدار ہے۔ اس نعرے کو جنم لینے کی ضرورت کیوں کر پیش آئی؟ جنرل پرویز مشرف کی بھارت سے دوستی کا نتیجہ بھی دیکھا۔ وردی اتری تو بھارت نے منہ نہیں لگایا بلکہ اپنے ملک کا ویزہ دینے سے بھی انکار کر دیا۔ اور موجودہ حکمران جو خیر سے کشمیری بھی کہلاتے ہیں بھارت سے ذاتی و کاروباری تعلق میں ازحد جذباتی ہیں ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھارت سی پیک منصوبے اور افغانستان کے معاملہ میں انتہائی سازشی اور دشمن ملک ثابت ہوا ہے۔ اگر پارٹی یا قائد سے رومانس ملک کی محبت پر غالب آنے لگے تو سمجھو معاملہ ذاتی پسند و نا پسند کا ہو گیا ہے۔ پاکستان سے محبت کا حقیقی تقاضا یہی ہے کہ ملک پہلے ذاتی تعلقات و پسند و نا پسند بعد میں۔ بزرگوں نے آزادی کے لئیے قربانی اس لئے نہیں دی تھی کہ ان کی نسلیں غلام ابن غلام ابن غلام بنا دی جائیں۔ میاں نواز شریف نے مسلم لیگ (ن)کے نام پر جماعت بنائی، بہت مقبولیت پائی مسلم لیگیوں کو رومانس کا کھل کر موقع دیا۔ مسلم لیگ کا رومانس ہی ہے جس نے نواز شریف کو تین بار وزیراعظم بنایا۔ مریم نواز اور بلاول کے ووٹر بھی قائدین سے رومانس کی صورت ہیں۔ لیکن مسلم لیگیوں میں ایک طبقہ موروثیت اور غلام ابن غلام کے فارمولے کا قائل نہیں۔ اور نہ ہی مسلم لیگ سے رومانس کا گلہ گھونٹ سکتا ہے۔ ضمیر و شعور کی آواز پر لبیک کہنے والا یہ مسلم لیگی طبقہ موروثیت کو ووٹ دینے کی بجائے گھر بیٹھنے کو ترجیح دے گا۔ مسلم لیگ پاکستان کی بنیاد ہے اور بنیاد پرستوں کا رومانس حالت کرب میں مبتلا ہے۔نظریاتی پاکستانی پاک فوج کو سلام پیش کرتے ہیں۔اداروں کا احترام کرتے ہیں ۔ بھارت کو پاکستان کا ازلی دشمن قرار دیتے ہیں۔ جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں۔ آمریت کے خلاف ہیں۔ لیکن چند طالع آزماﺅں کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ کو بدنام نہیں کیا جا سکتا۔
٭٭٭٭٭
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024