بس ایک دفعہ آپ ہاں کر دیں۔ ہمیں آپ کی بیٹی کے سوا کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے لیکن وہ لیکن ویکن کو چھوڑ دیں، آپ رومیسا کا ہاتھ ایک دفعہ ساجد کے ہاتھ میں دے دیں آپ کی بیٹی ہمیشہ خوش رہے گی۔ ساجد کے والدین نے بڑی منت سماجت کر کے رومیسا کے ساتھ ساجد کی بات پکی کر دی۔
رومیسا کا تعقل ایک غریب گھرانے سے تھا۔ اس کا باپ ایک فیکٹری میں معمولی ملازم تھا بیٹی کی شادی اب تک اس لئے نہیں کی تھی کہ جہیز کے لئے سرمایہ نہیں تھا۔ بیٹی بھی ایسی خوبصورت تھی کہ جو ایک دفعہ دیکھتا ، دیکھتا ہی رہ جاتا۔ رومیسا نے ایف اے کا امتحان بڑی محنت کر کے اچھے نمبروں سے پاس کیا تھا۔ لیکن آگے تعلیم جاری نہ رکھ سکی تھی۔ کچھ بچوں کو ٹیوشن پڑھا دیا کرتی تھی۔ جس سے گھر کی گزر بسر ہو رہی تھی اس کے لئے جتنے بھی رشتے آئے سبھی نے جہیز کا تقاضہ کیا تھا۔ اب صرف ساجد کے والدین نے جہیز نہ لینے کا کہا تھا۔
رومیسا کا والد اسلم بہت خوش تھا کہ ! ابھی دنیا میں کچھ باقی ہیں جو ابھی بھی جہیز کی لعنت کو برا کہتے ہیں اور جہیز نہیں مانگتے لیکن پھر بھی اس نے اپنی حیثیت کے مطابق کافی چیزیں اکٹھی کر لیں۔ جو وہ دے سکتا تھا۔ رومیسا کی ماں تو خوشی سے پاگل ہوئی جا رہی تھی کہ اس کی بیٹی بھی اپنے گھر کی ہو جائے گی۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ایک دن جمعہ کے روز ساجد اور اس کے گھر والے رومیسا کے گھر آئے۔ اور انہوں نے کہا کہ ! شادی تو ایک دو سال میں کر ہی لیں گے۔ آپ یوں کریں کہ ! پہلے نکاح کر دیں۔ رومیسا کے والدین مان گئے۔ اس طرح رومیسا کا نکاح ساجد سے ہو گیا۔ ادھر نکاح ہوا تو ساتھ ہی ساجد اور اس کے والدین کے رویوں میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی۔
ایک دن انہوں نے آکر صاف طور پر کہہ دیا کہ ! آج کل تو ہر کوئی جہیز میں بیڈ صوفہ سیٹ ، فریج، ایل سی ڈی اور اپنی حیثیت کے مطابق لڑکے کے لئے سواری موٹرسائیکل یا کار وغیرہ تو ضرور دیتے ہیں اور یہ تو لازمی چیزیں بن چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ساجد نے ہمارے ایک پلاٹ پر کوٹھی بھی بنوانا شروع کر دی ہے۔ ظاہر ہے اس میں سامان کی ضرورت بھی تو ہو گی نہ یہ کہہ کر ساجد اور اسکے گھر والے تو چلے گئے لیکن رومیسا اور اس کے گھروالوں پر تو گویا دکھ کے پہاڑ گر گئے۔ وہ بیچارے مجبور تھے اب اور کر ہی کیا سکتے تھے۔ مجبوراً رومیسا کو ایک کمپنی میں نوکری کرنا پڑی۔ تا ک جہیز کے لئے سرمایہ جمع کر سکے۔ اسی طرح دو سال بھی بیت گئے۔
شادی کا دن قریب آتا جا رہا تھا اور رومیسا کی سوچیں اسے چین نہیں لینے دے رہی تھیں کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ گزارہ کیسے کرے گی۔ جہیز میں جو چیزیں سسرال والوں کو درکار تھیں وہ آ کر رومیسا کے گھر والوں کو لسٹ دے کر چلے گئے تھے۔ جس میں اب گاڑی کا مطالبہ بھی شامل ہو چکا تھا۔ رومیسا کے والد نے ادھر ادھر سے قرضہ پکڑ کر آخر تمام چیزوں کا بندوبست کر ہی دیا۔ اور پھر وہ دن بھی آ ہی گیا جس کا انتظار ہر لڑکے اور لڑکی کو شدت سے ہوتا ہے۔
رومیسا دلہن بنی کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی کہ اچانک ساجد کی والدہ کمرے میں داخل ہوئیں۔ ہاتھ میں جہیز کے سامان کی لسٹ پکڑی ہوئی تھی اور کہنے لگی کہ! میں نے دیکھنا ہے کہ سامان پورا ہے۔ پھر اس کے گھر لے جانے کا انتظام بھی کرنا ہے۔ اسے سامان دکھا دیا گیا۔ سب کچھ چیک کر کے وہ بہت خوش ہوئیں اور کہا ہاں ! سب ٹھیک ہے۔ آخر سامان ساجد کے گھر لے جانا شروع کر دیا گیا جب سارا سامان بھیج دیا گیا تو پھر رخصتی کا وقت بھی آ گیا۔ لیکن!!! رومیسا نے اپنے ذہن میں کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔ عین رخصتی کے وقت رومیسا نے سسرال جانے سے انکار کر دیا۔ سب لوگوں نے اسے بہت سمجھایا لیکن اس کا صرف ایک ہی جواب تھا۔ کہ ان لوگوں نے ساجد کی شادی میرے ساتھ تھوڑا کی ہے۔ انہوں نے تو شادی صرف میرے جہیز کے ساتھ کی ہے۔ سو وہ لے چکے ہیں اور اب نہ مجھے ایسے لوگوں کے گھر جانا ہے نا ہی ان سے رشتہ رکھنا ہے۔ رومیسا اپنے کہنے پر ڈٹ گئی۔ آخر مجبوراً ساجد کے گھر والوں کو ہی سامان واپس بھجوانا پڑا اور انکا شرمندگی کا احساس اور منت سماجت بھی کام نہ آ سکی۔ نجانے کب جہیز کی لعنت سے ہم چھٹکارا حاصل کر سکیں گے اور ہمارا معاشرہ اس برائی سے پاک ہوگا۔ ہم بحیثیت مسلمان پتہ نہیں کیوں خاتون جنت، جنت میں تمام خواتین کی سردار حضرت بی بی فاطمہؓ کا جہیز میں دی گئی چند چیزوں کو کیوں بھول جاتے ہیں۔ حالانکہ جو والدین اپنے جگر کا ٹکڑا اپنی بیٹی ہی غیروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے۔ اور بزرگوں کا کہنا حق بجانب ہے کہ ! جن لوگوں کے منہ جگر کا ٹکڑا لے کر بند نہیں ہوتے ان کے کلیجوں میں ٹھنڈک دنیا کی جو مرضی چیز دے دی جائے تب بھی نہیں پڑ سکتی وزیراعظم پاکستان اور وزیراعلیٰ پنجاب نے جہاں والدین کی مشکل ون ڈش کے حکم سے حل کی تھی وہاں جہیز کے بارے میں مناسب حکمت عملی سے کروڑوں والدین کی پریشانی کم کرنے کے لئے بھی اقدامات کریں۔ بالخصوص مریم نواز صاحبہ ایک خاتون کی حیثیت سے اس سلسلے میں کردار ادا کریں تو بہتوں کا بھلا ہوگا!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024