یہ بات ایک ایسے شخص نے کی ہے جو حکومت میں ہے بلکہ مشہور یہ ہے کہ اصل اختیار اسی کے پاس ہے، ویسے بھی ایک عرصے سے دونوں بھائی اقتداراور سیاست میں ہیں، ان کے مابین کبھی وہ دوری بھی پیدا نہیں ہوئی جو محترمہ بے نظیر بھٹو اور زرداری کے درمیان دیکھنے میں آئی یا جو زرداری اور بلاول میں پیدا ہو چکی ہے،یہ دونوں بھائی یک جان دو قالب ہیں، اس لئے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ شہباز میاں بڑے بھائی کے مشورے سے بولے ہیں اور انہیں وزیر اعظم کی تائید اور اشیر باد حاصل ہے۔
میںنے اتنی لمبی تمہید یہ باور کرانے کے لئے بیان کی ہے کہ یہ تجویز سنجیدہ ہے اور اسے سنجیدگی ہی سے لینا چاہے، یہ کوئی شوقیہ اور وقتی تجویز بھی نہیں،احتساب کی مانگ ایک عرصے سے کی جا رہی ہے، اٹھاسی سے ننانوے تک جو بھی حکومت ٹوٹی ، اس پر سنگین کرپشن کے الزامات لگائے گئے۔
کرپشن مالی بھی ہے، اخلاقی بھی، انصاف کے نظام کی بھی ہے،قرضے خوری کی بھی ہے، ہر طرح کی لوٹ مار کا نام کرپشن ہے اور یہ ہمارے جسد قومی کو کینسر کی طرح چاٹ رہی ہے، ہم اخلاقی طو ر پر دیوالیہ ہیں، مذہب کا محض لبا دہ اوڑھ رکھا ہے ورنہ مذہب تو ایک پائی کی خیانت کا روادار نہیں۔
نعرے بہت لگتے ہیں، مطالبے بھی بہت ہوتے ہیں، کرپشن کو پکڑنے کے ادارے بھی ان گنت ہیں مگر پورے معاشرے نے ایان علی کاروپ دھار لیا ہے۔ جو شخص کروڑ کی دیہاڑی نہیں لگاتا، اسے نکما خیال کیا جاتا ہے۔ کرپٹ طبقہ اپنے آپ کو باعزت بھی سمجھتا ہے اور سینہ چوڑا کر کے پھرتا ہے، ان کے محلات، ان کی گاڑیاں، ان کے سیکورٹی گارڈز، ان کے بچوں کے اسکول ان کی شاپنگ اور ا ن کے غیر ملکی دورے گننے میں نہیں آتے۔اب تو دوڑ یہ ہے کہ پرائیویٹ جہاز کس کا ہے بلکہ کتنے ہیں۔فارم ہاﺅسز تو شیطان کی آنت کی طرح پھیل رہے ہیں۔
اس دوڑ میں کوئی بھی پیچھے نہیں، نہ سیاست دان، نہ نوکر شاہی، نہ ارکان اسمبلی، نہ پولیس، نہ میڈیا اور اب تو مطالبہ یہ ہے کہ فوج کے بعض عناصر بہتی گنگا میں اشنان کرنے سے باز نہیں آتے۔میاں شہباز نے ججوں اور جرنیلوں کے بھی احتساب کی بات کی ہے اور بے لاگ ، مساوی، بلا امتیاز احتساب کی۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جج ، جرنیل اور میڈیا مقدس گائے ہیں، ان کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا، مگر دیگر ممالک میںکسی کوچھوٹ حاصل نہیں ہے، بھارت میں کتنے ہی سیاستدان کرپشن میں اندر ہیں، ترکی میں کتنے ہی جرنیلوں کو سزائیں ہوئی ہیں اور اب مصر کی عدالتیں سابق حکمرانوں کو پھانسیاں سنا رہی ہیں۔
شہباز میاں کی تجویزاگرچہ کراچی کے پس منظر میں ہے جہاں ایک سخت گیر آپریشن چل رہاہے اور ایک پارٹی کی دہائی ہے کہ اسے نشانہ بنایا جا رہا ہے، اگرچہ رینجرزور فوج والے روز یقین دلاتے ہیں کہ وہ کوئی فرق رکھے بغیر کاروائی کر رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ جو پکڑا جاتا ہے، اس کا تعلق کسی خاص سیاسی پارٹی سے ہو۔مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے تو مجرموں پر ہاتھ ڈال رہے ہیں، میں نے لکھا تھا کہ ایک زمانے میں گورنر میاں اظہر نے پنجاب میں ڈنڈا چلایا تو جو پکڑے گئے، وہ سب حکمران پارٹی کے چیلے تھے ، اس پر شور مچ گیا اور یہ آپریشن رک گیا، ابھی گورنر سرور نے بھی ذرا حرکت کی تو پتہ چلا کہ قبضہ مافیا تو خود حکومتی پارٹی کے لوگ ہیں۔ یہ آپریشن بھی رک گیا مگر اب فوج نے بسم اللہ کی ہے تو اسے درمیان میں روکنا کنیسر کو پھیلانے کا باعث ہو گا۔
اصل میں یہ سارا ایجنڈہ ضرب عضب کا حصہ ہونا چاہئے۔یہ آپریشن دہشت گردوں کے خلاف بھی ہے اور اسے مالیاتی دہشت گردوں تک پھیلانے کی ضرورت ہے، میں نہیں سمجھتا کہ فوج کو اگر اپنی صفوں میں کوئی خرابی نظر آئی تو وہ اس سے چشم پوشی کرے گی، فوج میں احتساب کا نظام بہت کڑا ہے، عام سول مقدمات کی طرح ان کی تشہیر نہیں ہوتی لیکن افسروں اور جوانو ں کے کورٹ مارشل کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ عدلیہ سے بھی توقع رکھنی چاہئے کہ وہ اپنی صفوں میں چھپی کالی بھیڑوں کا قلع قمع کرے گی، نچلی عدالتوں کا تو برا حال ہے اور اعلی عدلیہ اس سے پوری طرح آگاہ ہے، اب اگر قومی سطح پر احتساب کی لہر چل نکلے تو پھر کسی بھی طبقے کو پس و پیش سے کام نہیں لینا چاہئے۔
میں تو میڈیا کا آدمی ہوں اور میں کیا عام آدمی بھی دیکھتا ہے کہ کس طرح کچھ لوگ راتوں رات امیر کبیر بن گئے، جو تین مرلے کی کوٹھریوں میں تھے ، وہ وسیع محلات میں مقیم ہیں اور ان کے غیر ملکی دوروں اور دیگر اللے تللوں کی کوئی انتہا نہیں۔میڈیا کے ان عیاش پٹھوں کو از خود احتساب کے لئے پیش ہو جانا چایئے کیونکہ وہ دن رات دوسروں کے احتساب کے مطالبے دہراتے ہیں۔
بیرونی امداد کھانے والے کرپٹ عناصر بھی احتساب کے شکنجے میں کسے جانے چاہئیں ۔یہ تو قوم سے غداری کے مرتکب بھی ہو سکتے ہیں، نہ کوئی کام ،نہ کاج مگر ان کے بینک بیلنس بھرتے چلے جاتے ہیں۔ایک سے ایک بڑھ کر این جی او، اور سہانے خوابوں اور لچھے دار وعدوں سے معمور ان کے منشور۔ کوئی ان پر چیک انیڈ بیلنس کا نظام نہیں، جہاں سب ملے ہوں توکون کس پر ہاتھ ڈالے گا۔
عمران خاں نے نعرے بہت لگائے کہ وہ فلاں کے خلاف فلاں ملک میںمقدمہ دائر کرے گا، شہباز شریف نے بھی وعدے کئے کہ وہ لوٹ مار کی کمائی ملک میں واپس لائیں گے، ایک چیف جسٹس تھے جو کئی برس تک صرف ایک خط ہی لکھواتے رہے اور ان کا غصہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پر نکلا۔ اس سے پہلے ایک این آر او ہوا، اس نے سب کو پاک صاف کر دیا۔
جس ملک میں کرپٹ اور بد معاش باعزت سمجھے جائیں، وہاں احتساب کیا ہو گا، شروع ہو جائے تو میری ضرو رڈھارس بندھائیں تاکہ اپنی مایوسی دور کر سکوں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38