پرائیویٹ تعلیمی سیکٹر اور ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام

2018ءتک ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد بچوں کوسکولوں میں داخلہ دیا جائے گا
”پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب“ کاتصوربھی مرحوم وزیرآعظم محمد خاں جونیجو کے پروگرام کی جدید شکل نظر آتی ہے
پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی درجہ بندی اور جو فیس وصول کررہے ہیں ان کو اعتدال میں لایا جائے گا۔رانا مشہود احمد خان
اُردو انگلش میڈیم کے نام پربرساتی مینڈکوں کی طرح قائم ہونے والے پرائیویٹ تعلیمی ادارے اپنی مرضی سے فیسیں وصول کررہے ہیں
سابقہ دور حکومت میں تعلیم دوست پروگرام سے جو نتائج حاصل کرنے کی توقع کی جا رہی تھی وہ نتائج حاصل نہ ہوئے بلکہ اس منصوبے کا بستر ہی گول کر دیا گیااسی پروگرام کو نئی شکل دیتے ہوئے بڑے جوش اور جذبہ سے شروع کیا گیا
وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کے پروگرام ”پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب “کے تحت 2018ءتک ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد بچوں کو سکولوں میں داخلہ دیا جائے گا۔ سیاست بھی عجب کھیل ہے اس کھیل میں نئے سے نیا طریقہ ایجاد کیا جاتا ہے۔ گذشتہ چھ ماہ سے سیاسی کھیل کی ابتداءبھی 2013ءسے شروع ہوئی ہے اور اختتام بھی 2013ءپر ہوتا ہے اس وقت قوم جس قدر بحرانوں سے گزر رہی ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے ہر بحران کا 2018ءبڑے جوش اور جذبہ سے خاتمہ کا کہہ رہے ہیں کیونکہ موجودہ حکومت کی مدت بھی 2018ءکو ختم ہو رہی ہے۔ گویا عوام حکومت کہہ رہی ہے۔ اس کی کارکردگی کا مظاہرہ تو 2018ءمیں مکمل طور پر نظر آئے گا اور حکمرانوں کا کہنا ہے کہ 2018ءمیں ملک بحرانوں سے پاک ہو جائے گا۔ لہٰذا پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب پروگرام کے تحت ایک کروڑ اسی لاکھ بچوں کو سکولوں میں داخلہ سے شروع ہوئی اور قلم کی سازش نے کہیں اور پہنچا دی۔ پنجاب کی آبادی پاکستان کے صوبوں کے مقابلہ میں زیادہ ہے اور شرح خواندگی کے حوالہ سے بات کی جائے تو کراچی اور گلگت میں سب سے زیادہ ہے۔ اسماعیلی برادری کی غالب اکثریت گلگت میں آباد ہے یہ کاروباری اور پرامن برادری ہے ،اس برادری میں کسی فرد کے غیرخواندہ اور ان پڑھ ہونے کا تصور بھی گناہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس برادری میں شرح خواندگی سو فیصد ہے جبکہ پنجاب میں ایسا ماحول اور معاشرہ دکھائی نہیں دیتا پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب کا تصور بھی مرحوم وزیراعظم محمد خاں جونیجو کے پروگرام کی جدید شکل نظر آتی ہے جس کے تحت دن کے علاوہ رات کو بھی سکولوں میں کلاسز کا اہتمام کیا گیا تھا اور ایجوکیٹر کی خدمات حاصل کی گئیں لیکن ہماری بیوروکریسی کی نااہلی کی بناءپر اس تعلیم دوست پروگرام سے جو نتائج حاصل کرنے کی توقع کی جا رہی تھی وہ نتائج حاصل نہ ہوئے بلکہ اس منصوبہ کا بستر ہی گول کر دیا گیا۔ اب اسی پروگرام کو نئی شکل دیتے ہوئے بڑے جوش اور جذبہ سے شروع کیا گیا لیکن ایک پہلو بڑا خوش آئند ہے بقول شاعر ”سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا ہوا“ کے مصداق پنجاب کے وزیرتعلیم رانا مشہود احمد خاں نے فیصل آباد میں تعلیم کے حوالہ سے ایک اجلاس میں بتایا کہ پنجاب حکومت جلد ہی جو پرائیویٹ تعلیمی ادارے قائم ہیں ان کو سسٹم میں لانے کے لئے جلد ہی پنجاب پرائیویٹ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کر رہی ہے جس کے تحت پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی درجہ بندی کی جائے گی اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے اس وقت جو فیس طلباءاور طالبات سے وصول کر رہے ہیں ان کو اعتدال میں لایا جائے گا اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے غیرقانونی اقدامات کا تدارک کیا جائے گا۔ پنجاب پرائیویٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کے لئے ماہرین نے کام شروع کر دیا ہے اور ان کی سفارشات کی روشنی میں ایک نیا ایکٹ تیار کیا جائے گا جو فوری طور پر نافذالعمل ہو گا۔ بات کرنے کی نہیں کئے بغیر چارہ کار بھی نہیں کہ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلزم کے بخار میں مبتلا ہو کر بلاکسی جواز اور منصوبہ بندی کے اداروں اور صنعتوں کو قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کیا۔ ان میں ایسے تعلیمی ادارے بھی شامل تھے جو مختلف انجمن کے تحت چل رہے تھے، ان کی تعلیمی حوالہ سے ایک روشن تاریخ بھی تھی۔ تعلیمی اداروں میں خرابی اسی بھٹو ازم پالیسی سے پیدا ہوئی۔ تعلیمی اداروں کو قومی ملکیت میں لینے سے قبل تعلیم کو تجارت کا درجہ حاصل نہیں تھا لیکن اسی پالیسی سے رجوع کیا گیا تو جلد ہی ایک نیا منظر دکھائی دینے لگا کہ تعلیم جس کا تجارت سے کوئی تعلق نہیں اسے ایک نفع بخش تجارت کا درجہ دے کر پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیمی ادارے وجود میں آنے لگے اور محکمہ تعلیم نے تمام تر قواعد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض چند روپوں کے عوض پرائمری و ہائی سکولوں کے قیام کی اجازت دینی شروع کر دی جس کے نتیجہ میں ایک ہی مکان میں سکول بھی قائم ہو گئے مالکان کی رہائش بھی، پھر ایک وقت بھی آیا کہ سرمایہ داروں وصنعت کاروں نے تعلیم کو خسارہ سے پاک تجارت کا درجہ دیتے ہوئے کالجز اور یونیورسٹی بھی قائم کرنا شروع کر دیں ہماری عقل کو اندھی حکمران اشرافیہ نے اس تجارت کی اس قدر حوصلہ افزائی کی کہ یونیورسٹی کا لفظ بھی ایک نئی لوٹ کا درجہ بن گیا اس کے ساتھ ایک ظلم اور بھی اس قوم کے ساتھ ہوا کہ اردو انگلش میڈیم کے نام پر برساتی مینڈکوں کی طرح پرائیویٹ تعلیمی ادارے قائم ہونے لگے ، انہوںنے اپنی مرضی کی فیسیں بھی مقرر کر دیں اس کے ساتھ ہی عوام میں ماضی کے مقابلہ میں تعلیمی شعور زیادہ بیدار ہوا کیونکہ جو افراد غیرممالک میں روزگار کی تلاش کے لئے جاتے ہیں چاہے وہ لیبر کی حیثیت سے جائیں تو بھی تعلیم اہم قرار پاتی اور غیرممالک میں بطور لیبر محنت مزدوری کرنے والوں کے لئے تعلیم لازمی قرار دی گئی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہر فرد چاہے وہ امیر ہے، غریب ہے، درمیانہ درجے کا فرد ہے اس کی خواہش ہے کہ اس کے بچے تعلیم یافتہ ہوں لہٰذا عوام کی اس خواہش و کمزوری نے تعلیم کے شعبہ میں بھی ایک مافیا کو جنم دیااس مافیا نے مختلف سسٹم وگروپ کے نام پر اپنے تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیا عوام کی مجبوری کو سامنے رکھتے ہوئے فیسیں مقرر کر دیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ تعلیم کے نام پر اس لوٹ کا کسی حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ والدین کو ”تعلیمی مافیا“ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ ہم سرکاری تعلیمی اداروں کی جو صورت حال ہے اس پر تبصرہ کا حق محفوظ رکھتے ہوئے صرف پرائیویٹ سیکٹر میں قائم تعلیمی اداروں کی بات کرتے ہیں جو ایسی صنعت قرار دی جا چکی ہے جس میں خسارہ کا کوئی امکان نہیں۔ اب اگر حکومت کو ہوش آ گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ کر لیا ہے تو بلاتاخیر اس اتھارٹی کا وجود عوام کے سامنے آ جانا چاہیے اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے فیسوں کے نام پر جو بازار لوٹ مچا رکھا ہے اس کے آگے دیوار کھڑی کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ شعبہ اس قدر نفع بخش ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں جیسا کہ صنعت کاروں کا وطیرہ ہے کہ کاروبار میں بہت مندہ ہے اس مندہ کے باوجود ایک فیکٹری سے دوسری فیکٹری،ایک مل سے دوسری مل لگا لیتے ہیں۔ ایسے ہمارے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا حال ہے کہ ایک برانچ سے دوسری برانچ قائم کرتے جا رہے ہیں۔ تعلیم کے نام پر اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں لہٰذا نہیں لگام ڈالنے کی ضرورت ہے جو کہ ایکٹ کے ذریعے ہی ڈالی جا سکتی ہے۔ ضرورت صرف ایکٹ بنانے کی نہیں بلکہ اس ایکٹ کی روح کے مطابق اس پر عمل درآمد کرانے کی ہے لیکن یہ ذہن میں رہے کہ اب پرائیویٹ تعلیمی مافیا کے ہاتھ بہت لمبے ہیں