دو دن قبل کراچی کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی ایلومنائی ایسوسی ایشن سندھ کے تحت ’’امن، سکیورٹی اور گورننس‘‘ کے موضوع پر بطور مہمان خصوصی کور کمانڈر، کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے کراچی آپریشن سے متعلق اپنا کھرا تجزیہ بلند آہنگ کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’کئی بتوں‘‘ کو توڑ دیا ہے۔ کراچی میں منشیات فروشوں سے لیکر القاعدہ تک نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ’مافیاز‘ نے مضافاتی علاقوں کو اپنا گڑھ بنا لیا ہے نیز سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنے اندر سے عسکری ونگ اور جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ کریں، متوازی حکومتوں اور طاقت کے مراکز کا خاتمہ ناگزیر ہے! وائٹ کالر دہشت گردوں، ان کی مالی امداد مدد کرنے والوں اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے والوں کے گروپوں کا خاتمہ کریں گے۔کور کمانڈر کراچی نے ’بلند آواز پیغام‘ دے کر ہلچل مچا دی ہے ’واضح پیغام‘ کے اشارے حکومت، حکمرانوں، دہشت گردوں، ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں، اغواء کاروں، مافیاز، گینگ وار کے بڑوں، سہولت کاروں، مالی امداد فراہم کرنے والوں، متوازی حکومتوں یعنی ’’سیاسی پاور سینٹرز‘‘ القاعدہ، طالبان اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کے ماسٹر مائنڈز بعض پارلیمانی طاقتور سیاسی گروپوں کے سرپرستوں، فرقہ وارانہ و لسانی بنیادوں، عسکری ونگز والی مذہبی و سیاسی جماعتوں کے لیے ہے! لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کور کمانڈر کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے آئی ایس آئی کے ایک تہلکہ خیز شعبہ کے سربراہ رہے ہیں جہاں انہوں نے اندرونی و بیرونی سلامتی سے متعلق متعدد ’’چیلنج کیٹگری‘‘ کے دہشت گردی سے متعلق معاملات بخوبی نمٹائے ہیں۔ اس پس منظر میں نوید مختار دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کا ’’ٹریک ریکارڈ‘‘ رکھتے ہیں جس کا عملی اظہار وہ کراچی میں کر رہے ہیں ملکی سلامتی کے تقاضوں اور حکمت عملی سے آگاہ ہیں اور تجربہ کار بھی اسی لیے ان کی مختصر وقت میں کامیابی کا ذکر ہوتا ہے۔ کراچی آپریشن میں 30فیصد سے 60 فیصد سے زائد مختلف ظالمانہ مجرمانہ جرائم اور منظم دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے جس میں ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، منظم جرائم شامل ہیں۔ صفورا چورنگی کا خونیں واقعہ کراچی آپریشن کی کامیابیوں پر ایک ’بدنما داغ‘ کی طرح معلوم ہوتا ہے جو یقیناً انتظامیہ، حساس اداروں، منصوبہ سازوں (سی ٹی ڈی، سی آئی ڈی وغیرہ کے آپریشنل شعبوں کی ناکامی ہے اور سکیورٹی اداروں کے لیے اپنی کمزوریوں کو جانچنے اور موثر خفیہ اطلاعات کے نظام کی اصلاح کا نادر موقع ہے۔وجہ یہ ہے کہ فوجی اداروں کی پیشہ وارانہ ساکھ کا سوال اہم ہے اور یہی چیلنج ہے جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپریشن میں ناکامی کا کوئی آپشن نہیں ہے۔اسماعیلی آغا خانی برادری کے خون کی ہولی منانے والے قابل مذمت دہشت گردوں نے فون پر ہدایات افغانستان اور بعض ملک دشمن قوتوں سے لی ہیں یہ اب تک کی تحقیقات میں بتایا گیا ہے 48 اسماعیلی برادری کے بے گناہ لوگوں کی جانیں لینے والے انتہائی تربیت یافتہ تھے۔ یہ انتہائی سفاک اور ماہر تربیت یافتہ دہشت گرد تھے جو اپنا کام پھرتی سے کرکے کامیابی سے فرار ہو گئے۔ غالب امکان ہے کہ یہ غیر ملکی دشمن اداروں کے فرنٹ مین دہشت گرد تھے! اس لیے بعض ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ سکیورٹی لیپس کس کے کھاتے میں جائے گا؟ یقینا پانچ سے زائد خفیہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دشمنوں کے سرغنوں، آلہ کاروں، سہولت کاروں کا تمام نیٹ ورک توڑیں۔ بنیادی ناکامی تو خفیہ اداروں کی ہے جو کور کمانڈر نوید مختار کے ماتحت نہیں ہیں تمام کے اپنے اپنے سربراہ ہیں۔ اس لیے براہ راست افواج کو مورد الزام ٹھہرانا قطعی نامناسب ہے ہاں خفیہ ادارے بہر حال اپنی ’’منجی تھلے ڈانگ پھیریں‘‘ یا دوسری طرح جاسوسی اور کائونٹر ٹیررازم کے نظام کے خامیوں کی اصلاح کریں۔ کراچی، فاٹا، وزیرستان آپریشن ابھی مزید کئی ماہ چلے گا۔ یہ خفیہ اداروں اور پولیس کے خصوصی کرائم ونگ کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کا نیا، جدید، میرٹ پر مبنی، وسیع ہائی ٹیکنالوجی کا نظام، وضع کریں اور کراچی پولیس کا ’’اوورہال کام کریں مکمل اوور ہال‘‘!کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے ’’وائٹ کالر‘‘ دہشت گردوں کی ٹرم (ترکیب) استعمال کی ہے جو عوام کی گرتی نعشوں پر سیاست چمکاتے ہیں اس بات کا اشارہ دوسری طرف بھی ہے جو سیاسی جماعتوں کی بڑی قیادتوں کی طرف بھی جاتا ہے! شاید ایک یا دو ماہ تک سیاست دانوں میں دہشت گردوں، قاتلوں کی نشاندہی ہو جائے گی امید ہے کہ کور کمانڈر ایسے وائٹ کالر دہشت گردوں، ایجنٹوں، مالی مدد فراہم کرنے والوں اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنوا کر چھوڑیں گے۔ اگر کوئی سیاسی طاقتور پارٹی تعاون نہیں کرتی تو آرٹیکل 245 کا نفاذ کرکے تین ماہ میں مکمل کلین اپ آپریشن کا آپشن استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر ضرورت پڑے تو ’’ٹینک‘‘ بھی دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر کراچی میں استعمال کرنے سے گریز نہ کریں کیونکہ کراچی کا امن ملک کا مستقبل ہے!
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024